sniper 1 novel by riaz aqib
sniper 1 novel by riaz aqibسنائپر
-
(قسط نمبر 1)
-
ریاض عاقب کوہلر
-
ایک ایسے نشانہ باز کے ہنگامہ خیز شب و روز۔جس کی مہارت اس کے لیے وبال جان بن گئی تھی ۔
-
اس دو شاخے پر بیٹھے مجھے بارہ گھنٹے ہونے کو تھے ۔میں بس اپنے ہاتھ پاوں کو محدود حرکت دے کر اپنے اعضاءکو سُن ہونے سے بچا سکتا تھا ۔اس سے زیادہ حرکت کرنے کی عیاشی میری قسمت میں نہیں تھی ۔لیکن یہ سب میرے لیے اتنا زیادہ بھی مشکل نہیں تھا کہ مجھے اپنے فرض سے باز رکھ سکتا ۔دوران ٹریننگ میں چھتیس ،چھتیس گھنٹے اس سے بھی محدود جگہ پر بیٹھ کر گزار چکا تھا ۔بلکہ ایک مرتبہ تومجھے اڑتالیس گھنٹے گزارنے پڑ گئے تھے ۔
-
لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ ٹریننگ اور حقیقت میں زمین ،آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ٹریننگ ہوتی ہی غلطیاں سدھارنے کے لیے ہے جب کہ حقیقت میں غلطی کرنے کا مطلب اپنی جان گنوانا ہوتا ہے۔ خاص کر ایک سنائپر کے لیے غلطی کا تصور ہی محال ہے ۔ہمارے اساتذہ کہا کرتے تھے کہ ”سنائپر کے پاس فائر کرنے کے لیے صرف ایک گولی ہوتی ہے ۔اگر وہ گولی ہدف کو نہ چھو سکے تودردناک موت سنائپر کا مقدر بن جایا کرتی ہے ۔“ میرے پسندیدہ استاد، راؤ تصور کا قول اس بارے اور بھی متشدد تھا ۔ان کے مطابق سنائپر کے پاس فائر کرنے کے لیے دو گولیاں ہوتی ہیں ،پہلی گولی ہدف کے لیے اور اگر وہ خطا ہوجائے تو دوسری گولی اپنے لیے ، کیونکہ دشمن کے ہاتھ آنے کا مطلب زندہ درگور ہونا ہوتاہے۔
-
البتہ گولی کے نشانے پرلگنے کی صورت میں ایسی افراتفری اور انتشار پھیلتا ہے کہ سنائپر کی طرف لوگوں کا دھیان بٹ جاتاہے ۔یوں بھی سنائپر کا ہدف اہم شخصیات ہی کو نشانہ بنانا ہوتا ہے ۔لیکن عملی زندگی میں آنے کے بعد میں یہ کہنے میں حق بہ جانب ہوں کہ اس کے بر عکس ہونا بھی ممکن ہے ۔ کیونکہ ایک بار ہمارا ایک ساتھی ناکام فائر کرنے کے بعد بھی اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔اور اس کی وجہ اس کا آہنی ارادہ ، بہترین کیمو فلاج اور نشانہ بازی میں اعلا درجے کی مہارت تھی۔گو اصل ہدف خوش قسمتی سے بچ گیا تھا ،مگراس کے آٹھ نو محافظ ہمارے سنائپر نے چن چن کر مار ڈالے تھے ۔مجبوراََ دشمن کو سنائپر پکڑنے سے زیادہ اپنی جان بچانے کی فکر ہوئی اور وہ مزید کمک کی تلاش میں میدان چھوڑ کر بھاگ گئے ان کی واپسی تک ہمارا ساتھی وہاں سے غائب ہو چکا تھا ۔
-
درحقیقت ایک سنائپر کو نشانہ بازی میں مہارت کے ساتھ ذہنی طور پر بھی چاق چوبند اور ہوشیار ہونا چاہیے ،تاکہ حالات کے مطابق بہتر فیصلہ کر سکے ۔اس کے ساتھ اسے چھپنے کی جگہ کا چناو کرتے وقت وہاں سے فرار ہونے کے رستوں کو بھی نگاہ میں رکھنا چاہیے ،کہ کسی بھی ناگہانی صورت حال میں وہاں سے بھاگ کر اپنی جان بچا سکے ۔
-
اس وقت میرے ہاتھ میں آسٹریا کی بنی ایس ایس جی رائفل تھی ۔جسے سٹائیر سنائپر رائفل کہتے ہیں ۔گو آج اس سے کئی گنا زیادہ بہترین اور معیاری رائفلیں دستیاب ہیں ،مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی افادیت اچھی رائفلوں کی موجودی میں کم ہوجائے ۔اس سے آٹھ سو گز تک کسی آدمی کو آسانی سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔اس کی میگزین میں پانچ گولیوں کی گنجایش ہوتی ہے لیکن ہر بار فائر کرنے کے بعد رائفل دوبارہ کاک کرنا پڑتی ہے۔اس وقت میں نے جس جگہ کا انتخاب کیا تھا وہاں سے ہدف کا فاصلہ سات سو گز بنتا تھا ۔
-
سبز درخت کی مناسبت سے میں نے اپنے لباس کے اوپر سبز رنگ کا گِلی سوٹ پہنا ہوا تھا۔گِلی سوٹ ،سنائپر کاوہ مخصوص لباس ہوتا ہے جو اسے علاقے کی مناسبت سے چھپنے میں مدد دیتا ہے ۔ صحرائی علاقے میں ریتلے رنگ کاگِلی سوٹ جو خشک جھاڑیوں سے میل کھائے ،بنجر اور خشک علاقے میں مٹیالے رنگ کا گِلی سوٹ مکمل برفیلے علاقے میں سفید رنگ کا گِلی سوٹ اور سرسبز علاقے میں گہرے سبز رنگ کا گِلی سوٹ سنائپر کو چھپنے میں مدد دیتا ہے۔یوں بھی سنائپنگ میں چھپنے کی اہمیت اتنی ہی اہم ہے جتنی ہدف کو نشانہ بنانے کی ،کیونکہ خود کو چھپا کر ہی ایک سنائپر ہدف تک رسائی حاصل کر سکتا ہے ۔روانہ ہونے سے پہلے ہی سنائپر نے منصوبہ بندی کی ہوتی ہے کہ وہ کس قسم کا گِلی سوٹ ساتھ لے کر جائے گا ۔ بعض اوقات اسے منصوبے کے مطابق چھپنے کی جگہ نظر نہیں آتی ،ایسی حالت میں وہ وقتی طور پر گھاس پھوس درختوں کے پتوں یا اپنے جسم کو کیچڑ میں لت پت کر کے علاقے کی مناسبت سے اپنا کیمو فلاج کر لیتا ہے۔
-
میں نے پشت پر بندھی پانی کی بوتل کے پلاسٹک پائپ کو منہ میں لے کر تھوڑا سا پانی پیا ۔ موسم کافی خوش گوار تھا ۔ورنہ تو گرمی سنائپر کے لیے کا اذیت کا باعث بنتی ہے ۔اسی طرح پانی ختم ہونے کی صورت میں پیاس کی زیادتی بھی ایک مستقل عذاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔
-
ٹیلی سکوپ سائیٹ میں جھانک کرمیں دائیں بائیں کے علاقے کو دیکھنے لگا۔اطراف میں چھدرے چھدرے درخت پھیلے ہوئے تھے ۔میرے ہدف نے دائیں جانب سے نمودار ہونا تھا ، مگر میں اس سمت کی دور تک نگرانی نہیں کر سکتا تھا کہ میں نے اپنی مچان بنانے کے لیے موڑ کے قریب جگہ کو پسند کیا تھا ۔وہاں سے موڑ تک کا فاصلہ قریباََ دو کلو میٹر بنتا تھا ۔
-
میں نے آنکھیں بند کرکے ایک لحظے کے لیے دو شاخے کے ساتھ سر ٹکا دیا۔ہلکی سی غنودگی کا احساس ہوا اور میں سر جھٹک کر نیند کو بھگانے لگا ۔ذرا سی نیند بھی مجھے تکمیلِ مقصد سے غافل کر سکتی تھی ۔ ٹریننگ کی ابتدا ہی میں ہمیں جوڑیوں کی صورت میں ہر کام کرنا سکھایا گیا تھا،کیونکہ سنائپرزکا جوڑیوںکی صورت کام کرنانہایت ہی مفید ہوتا ہے ۔ اس مشن میں میرا ساتھی حوالدارصادق تھا ، مگر بد قسمتی سے سرحد پار کرتے ہوئے اس کے پاو ¿ں میں موچ آ گئی تھی اورمجھے مجبوراََ اسے یہاں سے چند میل پیچھے سرحد کی جانب ایک محفوظ مقام پر چھوڑ ناپڑ گیا تھا۔وہ مجھ سے سینئر تھا، بلکہ میرا استاد بھی تھا۔اور اس مشن کی تکمیل کی اصل ذمہ داری اسی کے کندھوں پر تھی۔پاو ¿ں میں موچ آنے کے بعد وہ واپسی کے حق میں تھا مگر میں اکیلا جانے پربہ ضد ہوا کہ میرا پہلا مشن تھا اور پہلی بار ہی منہ اٹھا کے واپس ہو جانے میں مجھے سبکی محسوس ہو رہی تھی ۔
-
امید تھی میری واپسی تک اس نے چلنے کے قابل ہوجانا تھا۔میں نے کلائی پر بندھی گھڑی پر نگاہ دوڑائی۔ گھڑی کی سوئیاں ساڑھے چھے کا ہندسہ عبور کر رہی تھیں ۔میں صبح پانچ بجے سے پہلے درخت پر سوار ہوا تھا ۔اس وقت سورج غروب ہونے کی مکمل تیاری کر چکا تھا۔یقینا میرے ہدف کی آمد اگلی صبح تک کے لیے ملتوی ہو گئی تھی ،کہ اس علاقے میں رات کی حرکت نہ ہونے کے برابر تھی ۔میں نے آخری بار دائیں بائیں دیکھا اور ہاتھ پھیلا کر انگڑائی لینے لگا ۔مزید چند منٹ میں نے اپنے مختلف اعضاءکو حرکت دے کر سستی کوبھگایا اور پھر سمال پیک سے بھنے ہوئے چنے نکال کر کھانے لگا ۔ چنے کھا کر میں نے پانی پینے کے لیے واٹر پائپ کو منہ لگایا تو دو گھونٹ سے زیادہ پانی نہ مل سکا ۔ میں آتے وقت ایک چشمہ تاڑ آیا تھا، مگر وہاں تک جانے کے لیے مجھے اندھیرا ہونے کا انتظار کرنا تھا ۔دشمن کا علاقہ تھا میری نقل و حرکت کسی کی نگاہ میں آنے کا مطلب ،مشن سے ہاتھ دھو بیٹھنا تھا ۔
-
اندھیرا ہوتے ہی میں درخت سے نیچے اتر آیا ۔سمال پیک سے امریکن نائیٹ ویژن سائیٹ نکال کراس کے ساتھ لگے تسموں کی مدد سے سائیٹ آنکھوں پر باندھ لی ۔سائیٹ آن کر تے ہی اس کا اندرونی پیٹرن روشن ہوا اور مجھے ہر طرف ہلکا سبز دکھائی دینے لگا ۔اندھیری رات میں وہ سائیٹ مجھے بارہ ، تیرہ تاریخ کے چاند کے بہ قدرارد گرد کا علاقہ روشن دکھا رہی تھی ۔رائفل کندھے سے لٹکا کر میں نے پسٹل ہاتھ میں پکڑ لیا کیونکہ سنائپر رائفل سے تیزی سے فائر کرنا ممکن نہیں ہوتا،ہر سناپر اپنے ساتھ سنائپر رائفل کے علاوہ کوئی اچھی ساخت کا پسٹل ضرور رکھتا ہے تاکہ بہ وقت ضرورت اسے کام میں لا سکے ۔ پسٹل کی نال پر سائیلنسر فٹ تھا ۔تیس راونڈ کی لمبی میگزین لگا کر گلاک نائنٹین کسی بھی طرح کلاشن کوف سے کم مفید نہیں تھا۔ایک سنائپر کو سنائپر رائفل کے ساتھ پستول کے استعمال میں بھی مہارت حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے اور بلاشبہ میں پستول کے استعمال میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔
-
چشمے کی طرف قدم بڑھانے سے پہلے میں نے فطری تقاضا پورا کیا۔اور پھر چشمے کی طرف بڑھ گیا ۔وہ پہاڑی علاقہ تھا ۔جولائی کے مہینے میں بھی موسم اچھا خاصا سرد تھا ۔دن کی روشنی میں دور نظر آنے والی اونچی چوٹیوں پر برف کی سفیدی دیکھی جا سکتی تھی۔گو دن کو سورج کی تمازت ماحول کو کافی حد تک گرما دیتی تھی مگر یہ حدت بھی خوشگوار اثر لیے ہوئے ہوتی تھی ۔چشمہ مچان سے قریباََ ڈیڑھ کلو میٹر دور تھا۔ اس قریباََ ڈیڑھ کلو میٹر میں پچیس تیس گز کی کمی بیشی ہو سکتی تھی اس سے زیادہ نہیں ،کیونکہ ایک سنائپر کے لیے فاصلوں کا اندازہ لگانا بیکار کا مشغلہ نہیں ٹریننگ کا حصہ ہوتا ہے ،جو بعد کو عملی زندگی میں کام آتا ہے ۔
-
اطراف کا جائزہ لیتے ہوئے میں نارمل رفتار سے چشمے کی طرف بڑھتا گیا ۔جنگلی جانوروں سے مڈ بھیڑ ہونے کا خطرہ نہ ہونے کے برابر تھا ۔گو اس علاقے میں کبھی کبھار ریچھ اور شیرنظر آ جاتے ہیں مگر ایسا واقعہ خال ہی پیش آتا ہے ۔ البتہ وہاںلومڑ کثیر تعداد میں موجودہیں۔ دشمن کے گشتی دستے بھی چونکہ پہلے سے موجود رستوں پر گشت کرتے رہتے تھے اس لیے ان کی طرف سے بھی میں بے فکر تھا ۔لیکن کسی بھی قسم کی انہونی ،اچانک سر پر پڑنے والی افتاد کا گمان ،اس کے ساتھ رات کا اندھیرا ،انجان علاقہ ،دشمن کی سر زمین اور تکمیل مقصد سے پہلے کسی حادثے کا خطرہ اور اس جیسے کئی ایک احساسات بہ ہر حال میرے دل میں ضرور جاگزیں تھے۔
-
ہلکی ہلکی ہوا چلنا شروع ہو گئی تھی ۔یہ ہوا سردی بڑھانے کا سبب بنتی ہے ۔کیونکہ یہ برفیلی چوٹیوں سے گھوم پھر کر یہاں تک پہنچتی ہے ۔چشمے کے قریب پہنچ کر میں بیٹھ گیا اور ہاتھوں کا اوک بنا کر پانی پینے لگا۔نہایت ٹھنڈا اور شیریں پانی تھا ۔خوب سیر ہونے کے بعد میں نے سمال پیک سے پلاسٹک کی بوتل نکالی اور بھرنے لگا۔بوتل بھر کر میں نے سمال پیک میں رکھی اور واپس چل پڑا ۔لیکن واپس چلنے سے پہلے میں نے قطبی ستارے کو دیکھ کر سمت کا تعین ضروری سمجھا تھا ۔گو میرے پاس کمپاس بھی موجود تھا لیکن آسمان صاف ہونے کی وجہ سے اس کی ضرورت مجھے محسوس نہیں ہوئی تھی ۔
-
ایک سنائپر کے ضروری سامان میں کمپاس ،دوربین،نائیٹ ویژن سائیٹ ،نقشہ ، چاقو،رسی، ونڈ میٹر،ٹارچ ،لائیٹر یا ماچس اوروائر کٹّروغیرہ کی موجودی نہایت ضروری ہے ۔
-
٭٭٭
-
واپس جاتے ہوئے میرے ذہن میں اپنے سینئر کی ہدایات اجاگر ہوئیں ۔جو اس نے مشن پر روانہ ہونے سے پہلے ہمیں دی تھیں ۔
-
”اٹھائیس یا انتیس جولائی کواس علاقے میں بریگیڈئر پرکاش کی آمد متوقع ہے ۔“اس نے دیوار پر ٹنگے بڑے سے نقشے پر سبز رنگ کے لیزر پوائنٹر کی روشنی سے ایک مخصوص جگہ کی نشان دہی کی ۔
-
”اور یہ وہی بد بخت ہے جس کے حکم سے اس سرحد ی پٹی پرآئے روز گولہ باری جاری رہتی ہے ۔“اس نے مخصوص رستے کی نشان دہی کے ساتھ نقشے کے ساتھ لٹکی ایک بڑی سی تصویر پرلیزر پوائنٹر کی روشنی ڈالی ، وہ تصویر بریگیڈیر پر کاش کی تھی ۔ہمارے سینئر کی گفتگو جاری رہی ۔
-
”سرحد کے سکون کو تہ وبالاکر دیاہے خبیث نے ۔گو اس بے مقصد گولہ باری سے سرحدی علاقے کے مظلوم شہری ہی بے سکون رہتے ہیں بلکہ، کئی ایک کے زخمی اور جاں بہ حق ہونے کی خبریں بھی تواتر سے ملتی رہتی ہیں۔اس لیے ایسے شر پسند جو امن معاہدے کو خاطر میں لائے بغیر اپنی کارروائیاں جاری رکھیں ،زندہ رہنے کا حق کھو دیتے ہیں ۔یہ ایسا خبیث شخص ہے کہ اس کی اپنی سپاہ اس سے سخت نالاں ہیں۔اسے یہاں تعینات ہوئے چار ماہ ہونے کوہیں اور ان چار ماہ میں شاید ہی کوئی دن ایساگزرا ہو جب اس کے حکم سے دشمن کی توپیں خاموش ہوئی ہوں ۔اب ہمیں باوثوق ذرائع سے خبر ملی ہے کہ یہ اگلے مورچوں کے معاینے کے لیے ان دو تاریخوں میں آنے والا ہے ،یقینا اس بد بخت نے کوئی نئی شرارت سوچنی ہو گی۔ ہم اس کی شرارتوں سے خوف زدہ نہیں ،لیکن شرارت کرنے والے کا سدّ باب اگر ممکن ہو تو سستی نہیں کرنی چاہیے ۔اور صادق!....آپ سینئر ہیں۔ اس سے پہلے بھی کئی بار سرحد پار جا کر کامیابی سے ہم کنار ہو چکے ہیں۔ جبکہ ذیشان حیدرپہلی مرتبہ کسی مشن پر جا رہا ہے ۔اسے اچھی طرح سمجھاناتاکہ آیندہ یہ بھی آپ کی طرح ایک اچھے سنائپر کے طور پر سامنے آ سکے ....یوں بھی یہ آپ کا ہونہار شاگرد ہے ۔ اور ذیشان!....آپ خوش قسمت ہیںکہ پہلا مشن اپنے استاد کی زیرِ نگرانی پورا کرو گے۔“
-
اب وہ سینئر ،تجربہ کار سنائپر اور میرا استادجس کے سر پر تکمیل ِ مشن کا بوجھ تھا یہاں سے قریباََ پانچ کلو میٹر دور بے بسی کی حالت میں پڑا تھا ۔اور مشن کی ساری ذمہ داری ایک نو آموز سنائپر یعنی مجھ پر آن پڑی تھی ۔گو زخمی ہونے کے بعد استادصادق نے مشن کو ادھورا چھوڑ کر واپس جانے کا مشورہ دیا تھا، مگر میرے اصرار پر اسے ضروری ہدایات اور نیک خواہشات کے ساتھ مجھے رخصت کرنا پڑا تھا ۔وہ دو گھنٹے تک مجھے سمجھاتا رہا تھا اور حقیقی بات ہے مجھے اپنی ساری ٹریننگ سے استاد صادق کی آخری ہدایات زیادہ موّثر لگی تھیں ۔کیونکہ یہ ہدایات عملی زندگی کی عین ابتداتھیں۔
-
درخت کے قریب پہنچ کر میں آگے نکلتا چلا گیا، جس جگہ ہدف کو نشانہ بنانا تھا وہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں قدرتی طور پر ایک دو پتھر ابھرے ہوئے تھے اس طرح کہ اس رستے سے گزرنے والی گاڑیوں کے لیے ایک قدرتی سپیڈ بریکر سا بن گیا تھا ۔اس جگہ سے پچاس ساٹھ گز مخالف سمت میں ایک جگہ میں نے IED (Empervis Explosive Divice)دو پتھروں کے درمیان ،زمین میں اس طرح دبائی ہوئی تھی کہ درخت پر بیٹھ کر اسے نشانہ بنا سکوں ۔اور اس کا مقصد ہدف کو نشانہ بنانے کے بعد برگیڈیر پرکاش کے محافظوں کو وقتی طور پر خوف زدہ کرنا اور ان کی توجہ کوکسی اور جانب پھیرنا تھا ۔اور حقیقت میں ہدف کو نشانہ بنانے کے بعد اس IEDکو ہِٹ کرنا ناممکن نہیں تو بہت زیادہ مشکل ضرور تھا ۔اور ایک سنائپر کی اصل پہچان یہی ہوتی ہے کہ اسے ہمیشہ اپنے نشانے پر اعتماد ہوتا ہے ۔
-
آج اٹھائیس جولائی کا دن گزر گیا تھا اور کل بریگیڈیر پرکاش کی آمد یقینی تھی ۔میں نے دیکھ بھال اور خوب سوچ سمجھ کردشمن کی آمد کی سمت سے بائیں جانب ایک درخت پر عارضی مچان بنائی تھی ۔ بائیں سمت جگہ چننے میں ایک تو یہ فائدہ تھا کہ بریگیڈئر پرکاش نے ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا ہونا تھااس لیے لامحالہ اس نے بائیں سائیڈ پر ہونا تھا۔دوسرا مجھے فرار کے لیے بھی یہی سمت مطلوب تھی ۔ اس جانب درخت بھی کچھ زیادہ تھے ۔ IEDکے ٹھیک لگا ہونے کا اطمینان کر کے میں واپس درخت کے پاس آیا اور مچان میں لیٹ کر سو گیا ۔خود کو رسے سے باندھنا مجھے نہیں بھولا تھا ،ورنہ دوسری صورت میں نیچے گر کر میں زخمی یا ہلاک ہو سکتا تھا۔
-
سارے دن کی تھکن اور بے آرامی کے باوجود میں رات کو اچھی طرح نہیں سو سکا تھا باربار آنکھ کھل جاتی ،ایک بار تو سیٹی کی آواز سن کر میں بے ساختہ چونک کر اٹھ بیٹھا ۔اور دوبارہ سیٹی بجنے پر میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی تھی کیونکہ غنودگی بھاگتے ہی میں نے آواز کو پہچان لیا تھا ۔یہ اس علاقے میں موجود ایک بڑے سائز کے چوہے کی آواز تھی جو جسامت میں بلی سے بھی بڑا ہوتا ہے ۔اس کا مقامی نام ترشون ہے ۔اپنے بل کے دہانے پر کھڑا ہو کر جب یہ زور دار آواز نکالتا ہے تو بالکل یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سیٹی بجائی جا رہی ہو ۔
-
صبح تڑکے اٹھ کر میں ضروریاتِ فطرت سے ہم کلام ہوا اور پھر درخت پر چڑھ کر اونگھنے لگا ، دشمن کی آمد بعد از دوپہر متوقع تھی کیونکہ اس رینک کے آفیسر کا صبح تڑکے جاگنا ایک مذاق ہی معلوم ہوتا ہے ۔ جاگنے کے بعد بہ ذریعہ ہیلی کاپٹر بریگیڈ ہیڈکواٹر میں پہنچنا اور پھر وہاں سے اگلے مورچوں کے معاینے کے لیے بائی روڈ آنے میں اتنی دیر تو بہ ہر حال ہو ہی جانی تھی ۔مگر اس کے باوجود بالکل ہی بے پروا ہو جانا مناسب نہیں تھا ۔دھوپ کے تیز ہوتے ہی میں سنبھل کر بیٹھ گیا وقفے وقفے سے میں دوربین کے ذریعے ارد گرد کے علاقے کا جائزہ بھی لے لیتا تھا ۔جونھی سورج نے نصف سفر طے کیا ،مطلوبہ سمت سے ایک جیپ نمودار ہوئی میں نے دوربین آنکھوں سے لگا لی ،جیب کا نظارہ بالکل قریب ہو گیا تھا ۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے دونوں جوانوں کی شکل برگیڈیر پرکاش سے بالکل میل نہیں کھاتی تھی ۔تھوڑا مزید نزدیک آنے پر ان کے رینک بھی نظر آنے لگے ۔ڈرائیور کے ساتھ درمیانی رینک کاایک آدمی بیٹھا تھا جبکہ عقبی جانب تین آدمی کلاشن کوفوں سے لیس کھڑے ہوئے تھے ۔جیپ سست رفتار ی سے چل رہی تھی ،یقینا یہ بریگیڈیر پرکاش کے آنے سے پہلے رستے کی دیکھ بھال کر رہے تھے ۔میرے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے تھے ۔وہ اسی سست رفتاری سے اس کچے رستے پر سے گزرتے چلے گئے ۔ مجھے یقین تھا کہ انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے کو ہیں ۔اپنے کیمو فلاج کا بغور جائزہ لے کر میں بریگیڈیر پرکاش کے استقبال کے لیے تیار ہو گیا ۔گھٹنوں پر رکھی رائفل میں نے ہاتھوں میں تھام لی تھی ۔ٹیلی سکوپ سائیٹ کے سامنے اور عقبی طرف کے گلاس کور اتار کر میں نے موڑ کی سمت شست باندھ لی ۔سائیٹ کے اند ر تین گہری سیاہ لکیریں نظر آ رہی تھیں ،دو لکیریں دائیں بائیں سے درمیان کی طرف آ رہی تھیں اور ایک قدرے موٹی لکیرتھی جو نیچے سے اوپر کی جانب اٹھ کر جا رہی تھی ۔موخّر الذکر لکیر نیچے سے موٹی تھی اوراس کا اوپری سرا بالکل باریک تھا ۔تینوں لکیریں درمیان سے ذرا پہلے ختم ہو جاتی تھیں ۔اگر نیچے والی لکیر کو اوپر کی طرف مکمل اٹھا دیا جاتا تو سائیٹ کے اندر بڑا سا جمع کا نشان بن جاتا۔اسی عمودی لکیر کا اوپری سرا میرا شستی نقطہ تھا ۔
-
٭٭٭
-
دشمن کی گشتی جیپ کو گزرے گھنٹا گزرا ہوگا کہ ایک دم موڑ سے تین گاڑیاں نمودار ہوئیں ، دو کھلی چھت کی جیپیں اور درمیان میں چھت والی ٹویوٹا جیپ تھی ۔درمیانی رفتار سے چلتے ہوئے تینوں گاڑیوں نے کلو میٹر بھر کا فاصلہ طے کیا تھا کہ اچانک مجھے ٹویوٹا جیپ کے شیشوں کا کالا رنگ نظر آیا۔میرا دل بیٹھنے لگا ۔ہدف کو میں نے سائیڈ سے نشانہ بنانا تھا اور کالے شیشوں کی وجہ سے ہدف کا نظر آنا ممکن نہیں تھا۔ اس ایک حل تو یہی تھا کہ میں سامنے سے جیپ کو نشانہ بناتا،مگرایسی صورت میں ہدف کا فاصلہ مجھ سے بڑھ جاتاجس کے باعث درست نشانہ لگانا ممکن نہیں تھا ۔اس رائفل سے آٹھ سو میٹر تک ہی درست نشانہ لگایا جا سکتا تھا ۔اگر آٹھ سو میٹر سے فاصلہ بڑھ جاتا پھر نشانے کی درستی یقینی نہیں تھی ۔میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس منحوس کی جیپ کالے شیشوں والی ہو گی ۔یوں بھی آرمی میں جیپوں کے کالے شیشے اس سے پہلے میری نظر میں نہیں گزرے تھے ۔ایک دم مجھے اپنا مشن ناکام ہوتا دکھائی دیا ۔ میرے پاس سوچنے کے لیے دو تین منٹ سے زیادہ وقت نہیں تھا ۔بریگیڈیر پرکاش نے واپسی کے لیے دوسرا رستا اختیار کرنا تھا جو یہاں سے پندرہ بیس کلومیٹر دور تھا ۔بریگیڈیر پرکاش سے پہلے وہاں تک پہنچنا میرے لیے ناممکن تھا۔اگر میں بہت زیادہ تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتا اور کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچ بھی جاتا تب بھی خود کو چھپا کر دشمن کے خلاف کوئی پروگرام سوچ کر اس پر عمل پیرا نہیں ہوسکتا تھا ۔
-
استاد صادق نے آخری نصیحت میں کہا تھا کہ ۔”ایک تربیت یافتہ سپاہی کامشن میں ناکام ہونے کے بعد زندہ واپس لوٹنا بھی آدھی کامیابی ہوتی ہے ۔“مگر میں اپنے پہلے مشن میں آدھی کامیابی پر اکتفا نہیں کر سکتا تھا ۔گاڑیوں کا فاصلہ ہر گزرتے سیکنڈ کم ہوتا جا رہا تھا ۔رائفل کی بیرل پر سائیلنسر فٹ تھا اور فائر ہوتے وقت صرف ہلکی سی ”ٹھک “ کی آواز اٹھنا تھی جو فائرکی جگہ سے زیادہ سے زیادہ چند گز دور ہی سنی جا سکتی تھی ۔
-
اور پھر فیصلہ کن لمحا آن پہنچا ۔اگلی جیپ میرے سامنے سے گزری۔بریگیڈیر کا ٹویوٹا اس سے بیس پچیس گز پیچھے تھا میں سیکنڈ بھر میں ایک نتیجے پر پہنچا اور شست لیتے ہوئے ٹریگر دبا دیا ۔” ٹھک“ کی آواز کے ساتھ بلٹ نے مزل کو چھوڑااور اسی لمحے سب سے آگے والی جیب کا پچھلا ٹایرزور دار دھماکے سے پھٹ گیا تھا ۔جیپ ہلکے سے لہرا کر رک گئی ۔جیپ میں کھڑے باوردی ہتھیار بردار جوان چھلانگ لگا کر نیچے اترے اور چاروں طرف سرسری نظر دوڑا کر ٹایر کی طرف متوجہ ہو گئے تھے ۔تینوں گاڑیاں رک گئی تھیں ۔سب سے آخری جیب میں موجود ہتھیار بردار جوانوں نے بھی جیپ سے اتر کر اطراف میں پوزیشن اختیار کر لی تھی ۔
-
اس دوران میں نے کاکنگ ہینڈل کو کھینچ کر رائفل اس احتیاط سے دوبارہ کاک کر لی تھی کہ خالی کیس نیچے زمین پر نہ گرنے پائے ۔پتھریلی زمین پر تانبے کا کیس اچھی خاصی آواز پیدا کر کے دشمن کو متوجہ ہونے کا باعث بن سکتا تھا ۔
-
اگلی جیپ کے ڈرائیور نے جیپ کی عقبی طرف بندھا فالتو ٹایر کھولنا شروع کر دیا تھا ۔
-
اسی وقت میری دعائیں رنگ لائیں اورمیری ترکیب کو کامیابی کی جھلک نظر آئی۔بریگیڈیر پرکاش نے اپنی جانب کا شیشہ نیچے کر کے سر باہر نکالا،شاید وہ اگلی جیپ والوں کو کوئی ہدایت دینے والا تھا یا خالی ایک نظر ہی باہردیکھنا چاہتا تھا ۔مجھے اس کے ارادے سے کوئی غرض نہیں تھی ۔شیشے کے نیچے ہوتے ہی میری انگلی نے ایک جھٹکے سے ٹریگر کی آزادنہ حرکت کو پورا کرتے ہوئے مکمل ٹریگر دبا دیا ۔سر میں لگنے والی گولی چیخنے کا موقع نہیں دیا کرتی ۔طاقتور بلٹ نے اس کا آدھا سر اڑا دیا تھا ۔
-
ڈرائیور بلند آواز میں چیخا اور جیپ کا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔باقی سب بھی اس طرف متوجہ ہو گئے تھے ۔
-
میں نے ان سے نظر ہٹا کرایک بار پھر رائفل کاک کی اور IEDکی جگہ پر شست باندھ کر تیسری گولی فائر کر دی ۔کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا اسی وقت تمام ہتھیار برداروں نے اچانک فائر کھول دیا تھا ۔کلاشن کوفوں کے فائر کی تڑتڑاہٹ سے ماحول گونج اٹھا تھا ۔چونکہ کسی کوابھی تک میرے چھپنے کی جگہ کے بارے معلوم نہیں ہوا تھا اس لیے وہ چاروں طرف گولیاں برسا رہے تھے ۔
-
جیپ کی عقبی نشست کھول کر دو آفیسر باہر آئے اور تمام کو اندھا دھند فائر کرنے سے منع کرنے لگے ۔یقینا بریگیڈیر پرکاش کے بعد وہی دونوں سینئر تھے ۔
-
ہمارے استاد صوبیدار راو تصور کہا کرتے تھے کہ کسی بھی فوجی دستے کو اگر سراسیمہ اور حواس باختہ کرنا ہوتو ان کے کمانڈر کو ختم کر دو ۔کمانڈر کی غیر موجودی میں وہ دستہ بھیڑوں کا ریوڑ بن جائے گا ۔“
-
اپنے استاد کا سنہری قول اس وقت میرے دماغ میں گونجا اور میں نے ٹویوٹا جیپ سے برآمد ہونے والے دونوں آفیسرز میں سے ایک کا نشانہ لے کر فائر داغ دیا ۔وہ اچھل کر نیچے گرا۔دوسرا ایک لمحے کے لیے شاک کی کیفیت میں آ گیا تھا ۔ موقع غنیمت جانتے ہوئے میری رائفل نے میگزین میں موجود آخری گولی اُگلی اور دوسرا بھی اس کے قریب گر کربن پانی کی مچھلی کی طرح پھڑکنے لگا ۔
-
میں نے سرعت سے میگزین تندیل کی اس وقت وہاں آٹھ بندے زندہ نظر آ رہے تھے ۔ان میں سے ایک کی کلاشن کوف کا رخ انھی درختوں کی طرف تھا جہاں میں چھپا ہوا تھا ۔میں نے دفاعی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے پہلے اسی سے جان چھڑانے کا سوچا اور اگلے لمحے وہ مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہا تھا ۔اصولاََ مجھے بریگیڈیر پرکاش کے مرتے ہی وہاں سے فرار ہو جانا چاہیے تھا،مگر دشمن کی کم تعداد اور اپنی گولیوں کو مسلسل نشانے پر لگتا دیکھ کر میرا حوصلہ بڑھ گیا تھا ۔بہ قول استاد محترم سنائپر کی مثال اندھیرے کے تیر جیسی ہوتی ہے ،کہ جانے کس وقت کہاں سے نکل کر گردن سے پا ر ہو جائے ۔نظر نہ آنے والے دشمن کا خوف ،دکھائی دینے والے دشمن سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے ۔
-
اگلی ٹھک نے ایک اور کی زندگی چھین لی تھی ۔
-
کوئی چیخا ....”بھاگو ،ہم دشمن کے گھیرے میں ہیں ۔ایک آدمی نے آخری جیپ سٹارٹ کر کے ریورس گیئر لگایا ،مگر چند گز سے زیادہ پیچھے ہٹنا اسے نصیب نہیں ہو سکا تھا ۔میری چلائی ہوئی گولی نے اسے اسٹیرنگ پر لیٹنے پر مجبور کر دیا تھا ۔باقی آدمی گاڑیوں کا خیال دل سے نکال کر سر پٹ دوڑ پڑے ۔ میری رائفل کی رینج سے نکلنے سے پہلے دومزیدروحیں اپنے فانی جسم سے روٹھ کر محو پرواز ہو چکی تھیں ۔
-
وہ سر پٹ موڑ کی طرف بھاگتے جا رہے تھے ۔مسلسل اپنے ساتھیوں کو لاشوں میں تبدیل ہوتا دیکھ کر ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفقود ہو چکی تھیں۔جبکہ میرا حوصلہ آسمان کو چھو رہا تھا ۔ان کے ”آوٹ آف رینج“ ہوتے ہی میں سرعت سے نیچے اترااور درختوں کی آڑ لے کر واپس چل پڑا ۔ عام لباس کے اوپر پہناگِلی سوٹ گو چلنے میں رکاوٹ پیدا کر رہا تھا مگر چھپاو کے لیے بہت ضروری تھا۔[ گلی سکاٹ لینڈمیں استعمال ہونے والی ایک اصطلاح ہے جو ایک زمانے میں اُن خاص داروغوں کے لیے استعمال ہوتی تھی ۔ جو اپنے بادشاہ کی زمینوں میں نا جائز طور پر شکار کھیلنے والوں سے حفاظت کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ گلی گھاس میں مکمل طور پر چھپ کر بلا حرکت پڑے رہتے اور ہرن کا انتظار کرتے۔ مناسب وقت آنے پر کود پڑتے اور اُسے ہاتھوں سے دبوچ لیتے پھر بادشاہ کے حضور پیش ہو کر ہرن کا تحفہ دیتے اور انعام و کرام سے نوازے جاتے ۔ چھپاﺅ تلبیس کے اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے آج کل کے دور میں سنائپر اپنے آپ کو دشمن سے بچانے کے لیے اپنے اردگرد کے ماحول کے مطابق خود کوڈھال لیتے ہیں۔آج کے جدید دور میں گِلی سوٹ نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ مختلف ممالک اعلا درجے کے گِلی سوٹ تیار کر رہے ہیں جوہر علاقے میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک کے سنائپر یہی گِلی سوٹ استعمال کر رہے ہیں]میں گِلی سوٹ اتارے بغیر چلتا گیا ۔وہاں سے میں جتنا جلد غائب ہو جاتا اتنا بہتر تھا ۔جلد ہی دشمن نے اس علاقے کو گھیرے میں لے لینا تھا ،پکڑے جانے کی صورت میں انھوں نے میرے ساتھ جو کرنا تھا اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی عقل بینا کی ضرورت نہیں تھی ۔
-
میں نے چشمے والا رستا ہی اختیا کیا تھا ۔چشمے کے قریب رک کر میں نے سیر ہو کر پانی پیا اور واٹر بوتل بھر کر آگے بڑھ گیا۔چشمے سے فرلانگ بھر آگے جا کر اترائی شروع ہو جاتی تھی ۔اترائی شروع ہوتے ہی میری رفتار خود بہ خود بڑھ گئی ۔چونکہ میں باقاعدہ کسی رستے پر نہیں جا رہا تھا اس لیے سمت کی درستی کے لیے میں گاہے گاہے کمپاس پر بھی نظر ڈال لیتا تھا۔
-
اونچے ،نیچے اور ٹیڑھے میڑھے رستوں سے گزرکر میں نے تین کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا اور ایک خشک نالے کے قریب پہنچ گیا ۔نالے کے درمیان بارشی پانی کے گزرنے کی وجہ سے ریت ابھر آئی تھی اورساتھ میں چھوٹے بڑے پتھر بکھرے پڑے تھے ۔جھاڑیاں وغیرہ نالے کے کنارے پر موجود تھیں درمیانی علاقہ صاف تھا ۔نالے کی چوڑائی پچاس ساٹھ گز کے بہ قدر تھی ۔اور بد قسمتی سے وہاں سے سات آٹھ سو گز کے فاصلے پر موجود ٹیکری پر انڈین آرمی کے ایک سیکٹر کا بیس موجود تھا جہاں سے نالے کا یہ درمیانی حصہ آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا ۔جھاڑیوں کے اندر لیٹ کر میں نے دوربین آنکھوں سے لگا لی ۔
-
بیس پر غیر معمولی چہل پہل دیکھتے ہی مجھے یقین ہو گیا، کہ ان تک بریگیڈیر پرکاش کے ہلاک ہونے کی خبر پہنچ چکی ہے ۔دس آدمیوں کا ایک دستہ مجھے بیس سے نیچے اتر کر نالے کی سمت آتا دکھائی دیا وہ یقینا جائے وقوعہ کی جانب روانہ تھے ۔تمام کے تمام ہتھیاروں سے لیس تھے ۔وہ نالے میں اتر کر میری جانب بڑھنے لگے ۔ان کے پیچھے ایک اور دستہ تھا جو نالے میں آنے کے بجائے سیدھے رستے پر چلتے ہوئے وقوعہ کی جانب بڑھتا گیا ۔یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میں تیز رفتاری سے چلتے ہوئے اس جگہ پہنچ گیا تھا ورنہ یقیناان سے رستے میں مڈبھیڑ ہوتی اور ایسی صورت میں میرا مارا یا پکڑاجانا یقینی تھا ۔میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہیں چھپا رہوں ۔دوربین سمال پیک میں ڈال کر میں جلدی سے جھاڑی کے مزید اندر کھسک گیا ۔جھاڑی کے تنے کے قریب پہنچ کر میں بالکل ساکت لیٹ گیا ۔یوں کہ اپنے سانس کی آواز خود مجھے بھی سنائی نہیں دے رہی تھی ۔مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا تھا جلد ہی ان کی باتوں کی آواز مجھے سنائی دینے لگی ۔وہ پنجابی اور ہندی دونوں زبانوں میں بات کر رہے تھے ۔ پنجابی بولنے والے شایدسکھ تھے ۔ان کے قریب آنے تک جھاڑی کے تنے اور شاخوں پر پھرتے ہوئے چیونٹوں نے میرے بدن پر مٹر گشت شروع کر دی تھی ۔ایسی حالت میں عام بندہ چیونٹوں کو بدن سے دور جھٹکنے سے باز نہیں رہ سکتا ، کیونکہ یہ بہت بے دردی سے کاٹتے ہیں ۔میرے کان کی عقبی جانب اور ناک کی جڑ میں بھی دو نے بڑے مزے سے دانت گاڑ رکھے تھے ،مگر میں نے پلک تک نہیں جھپکی تھی ۔ایسی حالت میں تو سنائپر ایک بچھو کو بھی خود سے دور نہیں جھٹکتا۔
-
٭٭٭
-
”کم از کم آٹھ دس بندے ہوں گے۔“میری سماعتوں سے گزرنے والوں کا پہلا ،مکمل اور واضح فقرہ یہی ٹکرایا تھا ۔
-
”زیادہ بھی ہو سکتے ہیں ۔“ایک دوسری آواز نے اس کی تردید کی تھی ۔وہ جوڑیوں کی صورت میں روانہ تھے ۔اپنے ہتھیار انھوں نے تیاری حالت میں پکڑے ہوئے تھے ۔ایک آدمی نالے کی دائیں اور دوسرا بائیں سمت کی نگرانی کر رہا تھا ۔
-
”یار ! اچھا ہوا ، بریگیڈیر پرکاش سے تو جان چھوٹی ،خجل خوار کر رکھا تھا بے غیرت نے ۔“ یہ دوسری جوڑی کے آدمی آواز تھی ۔
-
اس کے ساتھی نے جواب دیا ۔”اس کی تو خیر ہے بلکہ ،میجر سورن کی موت بھی قابل برداشت ہے مگر،کرنل جگجیت سنگھ بہت اچھا انسان تھا ۔“
-
”گھات لگانے والے تو بس بریگیڈئر پرکاش ہی کے لیے آئے ہوں گے مگر........“اس کی آواز معدوم ہوتی گئی اور تیسری جوڑی کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرانے لگی ۔
-
”اگر ان کی تعداد واقعی آٹھ دس ہے تو ہم دس بندے انھیں کیسے روکیں گے؟“
-
اس کے ساتھی نے جواب دیا ۔”دوسری پارٹی سیدھے رستے پر جا رہی ہے اور باقی سیکٹرز سے بھی پارٹیاں روانہ ہیں ، سارے علاقے کا گھیراو کرکے تلاشی لی جائے گی۔کمانڈوز پلاٹون بھی بلائی جا رہی ہے ۔“
-
چوتھی جوڑی کا ایک آدمی انھی جھاڑیوں میں جہاں میں چھپا ہوا تھا۔رکتا ہوا بولا۔”میرا خیال ہے یہ جگہ مناسب ہے۔“
-
اس کے ساتھ نے جواب دیا ۔”اچھا جلدی کرو ،میں آگے جارہا ہوں۔تم فارغ ہو کر آ جانا۔“
-
”ٹھیک ہے ۔“کہہ کر وہ جھاڑی کی آڑ میں آ کر اپنی پینٹ کھولنے لگا ۔
-
آخری جوڑی کے ایک آدمی نے مسکرا کرکہا ۔”سریش!....تیری پینٹ ابھی سے ڈھیلی ہو گئی ہے ۔“ اس کے دوسرے ساتھی کا قہقہہ اس کے ساتھ شامل تھا ۔
-
سریش جواباََ بولا۔”یار !صبح سے پیٹ خراب ہے ۔اب آپ لوگ مذاق ہی اڑاو گے۔“
-
وہ آگے گزرتے چلے گئے ،جبکہ سریش پینٹ کھول کر اطمینان سے بیٹھ گیا ۔اس کا رخ میری جانب تھا ،مگر اس کی نگاہیں اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ تھیں ۔میں اس وقت جھاڑی کا حصہ بنا ہوا تھا ۔ میرے بدن کا کوئی جزو بھی گِلی سوٹ سے باہر نہیں تھا ۔سر پر رکھی ہوئی ٹوپی نے پورے چہرے کو ڈھانپ رکھا تھا ۔مخصوص سیاہ رنگ کی کریم میں نے پورے چہرے پر تھوپی ہوئی تھی ۔سنائپر رائفل پر بھی میں نے سبز رنگ کے کپڑے کی کترنیں اس انداز سے باندھی ہوئی تھیں کہ سوائے رائفل کے دہانے کے کوئی چیز نظر نہیں آ رہی تھی ۔
-
اچانک فضا میں وائرلیس سیٹ کی آواز گونجی ، یقینا سریش کا واکی ٹاکی بول رہا تھا ۔
-
”نمبر فائیو !....سینڈ یور لوکیشن اوور۔“
-
”سفید نالا،جنگل موڑ۔اوور۔“ دوسری آواز نے اپنی جگہ بتائی ۔
-
یقینا اس نالے کا کوڈ نام ، سفید نالا تھا۔میری موجودہ پوزیشن سے وہ نالاجنوب کی جانب مڑ رہا تھا ۔نالے کی مغربی طرف ان کا سیکٹر بیس تھا ۔ بیس کے نیچے بھی چھدرے چھدرے درخت موجود تھے ، مگر مشرقی طرف کافی گھنّے درخت پھیلے تھے جو نالے کے ساتھ دور تک چلے گئے تھے ۔جنوب کی طرف مڑنے کے بعد نالے کی چوڑائی دگنے سے بھی زیادہ ہو گئی تھی ۔اور درخت بہ تدریج جوانب کی ٹیکریوں تک پھیل گئے تھے ۔ان میں چیڑ و دیار کے بلند بالا درختوں کے ساتھ ساتھ جھاڑی نما درخت بھی موجود تھے ۔ تُنگ کے سدا بہار درخت بھی بہ کثرت بکھرے ہوئے تھے ۔اور انھی درختوں کے جنگل میں ،میں اپنے استاد صادق کو چھوڑ گیا تھا ۔سنائپرز کے نقطہ نظرسے اب یہ علاقہ محفوظ نہیں رہاتھا، مگراپنے ساتھی کو ساتھ لینا نہایت ضروری تھا ۔اگر حوالدارصادق وہاں چھپا نہ ہوتا تو یقینا میں نے نالے نالے میں آگے بڑھ جانا تھا اور دشمن کے اس علاقے کو گھیرنے سے پہلے میں کہیں دور نکل گیا ہوتا۔
-
”اپنے ساتھیوں کو چوکنا ہونے کی ہدایت دے دو ۔اور تمام کو بتا دو کہ یہاں صرف ایک بندے کی موجودی کے آثار ملے ہیں ۔وہ بہت اچھا نشانے باز اورمنجھا ہوا سنائپر ہے۔اس ایک ہی نے ہمارے آٹھ آدمیوں کو شہید کر دیا ہے ،اس لیے احتیاط سے کام لیں ۔اوور“(مسلمانوں کی دیکھا دیکھی دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اپنے جنگ میں ہلاک ہونے والے سپاہیوں کو شہید کہنے لگے ہیں )
-
”راجر ....“نمبر فائیو نے گویا بات سمجھ جانے کا اقرار کیا ۔
-
”کسی بھی چھوٹی سی چھوٹی بات کی فوراََ اطلاع دینا ۔کیپ لسننگ آوٹ۔“احکام دینے والے نے اسے آو ٹ کہتے ہی دوسری پارٹی کو پکارنا شروع کر دیا ۔”نمبر سکس!....سینڈ ،یوور لوکیش اوور۔“
-
جواب ملا۔”نالا روڈ جنکش اوور۔“
-
”کاپیڈ میسج،سیم ٹو یو ۔“پوری بات دہرانے کی ضرورت اس نے اس لیے بھی محسوس نہیں کی تھی کہ ،نمبر فائیو سے ہونے والی گفتگو نمبر سکس بھی سن رہا تھا ۔
-
”راجر ۔“نمبر سکس کی طرح سے سمجھ جانے کی اطلاع ملنے پروہ اسے بھی لسننگ پر رکھ کر تیسری پارٹی سے بات کرنے لگا ۔اس مرتبہ اس نے نمبر سیون پکارا تھا ،مگر نمبر سیون کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی یقینا وہ ہم سے دور تھا۔ کنٹرول کی مختلف پارٹیوں کوپکارنے کی آواز فضا میں گونجتی رہی ۔
-
گفتگو جاری رہی وہ واکی ٹاکی سیٹ کی طرف متوجہ رہا اور پھر مٹھی میں ریت بھر کر اپنی صفائی کرنے لگا ۔پینٹ باندھتے وقت اس کی نظر غیر ارادی طور پر اسی جھاڑی کی طرف اٹھی رہی جہاں میں چھپا بیٹھا تھا ۔اور اس کی بدبختی کہ میں نے اسے چونکتے دیکھا ۔مسلسل اس جانب گھورنے پر اسے میری ہیئت نے چونکا دیا تھا ۔یوں بھی میں افراتفری میں چھپا تھا اس لیے جھاڑیاں وغیرہ اپنے اوپر نہیں ڈال سکا تھا ۔بیلٹ باندھے بغیر وہ زمین پر پڑے اپنے ہتھیارکی طرف متوجہ ہوا ۔اس کے ہتھیار سنبھالنے تک میں یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ۔
-
”ٹھک “ کی آواز کے ساتھ اس کے سر میں روشن دان کھل گیا تھا ۔وہ نیچے گر کر تڑپنے لگا ۔میں جلدی سے جھاڑی سے باہر نکلا اور اس کی لاش کو گھسیٹ کر جھاڑی میں پھینک دیا ۔اس کا واکی ٹاکی سیٹ مجھے کارآمد لگا ۔واکی ٹاکی سیٹ مع اضافی بیٹری اٹھا کر میں نے پاس رکھ لیا اور پھر جھاڑیوں کی اوٹ میں رہتے ہوئے میں نے اس کے جانے والے ساتھیوں کی طرف نگاہ دوڑائی ،وہ فرلانگ بھر آگے نکل گئے تھے ۔دوربین نکال کر میں نے بیس کی طرف نگاہ دوڑائی ایک آدمی مجھے ٹہلتا ہوا نظر آیا ۔اس جگہ سے نالا عبور کرنے میں دیکھے جانے کا سخت خطرہ تھا ۔میں جھاڑیوں کی آڑ لے کر بیس کی طرف روانہ ہو گیا ۔واکی ٹاکی سیٹ کی آواز کم کر کے سیٹ میں نے آن رہنے دیا تھا ۔
-
جلد ہی سیٹ سے سریش کو پکار اجانے لگا ۔
-
”نمبر فائیو ،فار نِک نیم سریش اوور!....نمبر فائیو ،فار نِک نیم سریش اوور!........“وہ بار بار سریش کو پکار رہا تھا ۔پھر جیسے ہی اس نے وقفہ کیا، سیٹ سے ایک دوسری آواز بلند ہوئی ۔(ویسے زیادہ تر قارئین تو جانتے ہوں گے ،مگر جن کا کبھی وائرلیس سیٹ سے واسطہ نہیں پڑا ان کی اطلاع کے لیے بتلاتا جاو ں کہ وائرلیس سیٹ پر جب ایک طرف سے بات ہو رہی ہو تو سننے والا بات نہیں کر سکتا ،یہاں تک کہ بولنے والے کو اوور کہہ کر اگلے کو موقع دینا ہوتا ہے ۔اس ضمن میں یہ بھی یاد رہے کہ کنٹرول اس کو کہتے ہیں جو کسی جگہ موجود تمام پارٹیوں کو کنٹرول کر رہا ہو اور وائرلیس پر پیغام بھیج رہا ہو )
-
”کنٹرول فار نمبر فائیو اوور !“
-
”یس نمبر فائیو فار کنٹرول اوور۔“وہ کنٹرول کو جواب دینے لگا ۔
-
”نمبر فائیو ،نک نیم سریش کہاں گیاہے اورجواب کیوں نہیں دے رہا ؟“
-
”وہ رفع حاجت کے لیے رکا تھا پندرہ بیس منٹ ہونے کو ہیں ،پتا نہیں کیوں جواب نہیں دے رہا ،میں نے اس کی تلاش میں آدمی بھیج دیا ہے اوور۔“
-
”اکیلا آدمی نہیں بھیجنا ،تمام کو واپس لے کے جاو ہری اپ اینڈ جلدی سے اوکے رپورٹ بھیجو اوور!“کنٹرول سے بولنے والے کا لہجہ کافی سخت اور تنبیہی تھا ۔
-
”راجر !“نمبر فائیو جلدی سے بولا۔مگر کنٹرول کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا تھا ۔
-
ان کی گفتگو سن کر میرے قدموں میں خود بہ خود تیزی آ گئی تھی ۔تھوڑی دیر بعد میں بیس کے نیچے سے ہو کر نالا عبور کر رہا تھا ،اس جگہ میں بیس سے بھی نظر نہیں آرہا تھا اور نالے میں موجود دشمن کی نظر سے بھی اوجھل تھا ۔
-
نالا عبور کر کے میں جونھی جھاڑیوں میں گھسا ،واکی ٹاکی ایک مرتبہ پھر بول پڑا ۔
-
”نمبر فائیو فا ر فار کنٹرول اوور !“اس کی آواز سخت گھبرائی ہوئی اور متوحش تھی ۔
-
”یس اوور۔“کنٹرول کی بھاری آواز ابھری ۔
-
”سریش قتل ہو گیا ہے اوور۔“نمبر فائیو گھبراہٹ آمیز لہجے میں بولاتھا۔
-
”ہری اپ، پوزیشن لے لو ،وہ یہیں کہیں چھپا ہے ،میں باقی پارٹیاں بھیج رہا ہوں ۔ جوانوں کو کہو ،آڑ میں رہیں اوور ۔“
-
”راجر ۔“نمبر فائیو نے کہا ۔
-
”کنٹرول فا رلالی سیکٹر بیس اوور !“کنٹرول یقینا اسی بیس کو رابطہ کر رہا تھا جہاں سے میں گزر کر آیا تھا۔
-
”بیس فار کنٹرول سینڈ یوور میسج اوور!“
-
”کیا اپنے آدمی تمھاری نظر میں ہیں اوور“
-
”یس ،مجھے نظر آ رہے ہیں اوور۔“
-
”کیا ان کے علاوہ کوئی حرکت نظر آ رہی ہے اوور؟“
-
”نو ،اب تک تو نظر نہیں آئی جیسے ہی نظر آئی میں آپ کو بتا دوں گا ۔اوور“
-
”اوور اینڈ آل۔“
-
کہہ کر کنٹرول تمام پارٹیوں کو سفید نالے کی طرف اکٹھا ہونے کی ہدایات جاری کر نے لگا۔
-
میں نے ان کی گفتگو کے اختتام پر واکی ٹاکی کو بند کردیا کیونکہ مسلسل چلنے پر بیٹری نے ختم ہو جانا تھا گو ایک اضافی بیٹری میرے پاس موجود تھی مگر پھر بھی عقل مندی کا تقاضا یہی تھا کہ میں واکی ٹاکی کے استعمال میں کفایت شعاری سے کام لیتا ۔ان کی گفتگو نے میرے قدموں میں بجلی بھر دی تھی میں جتنا جلدی وہاں سے غائب ہو جاتا، بہتر تھا ۔اگر ایک بار وہ جنگل کو گھیرے میں لے لیتے تو یقینا میں نے چوہے دان میں پھنس کر رہ جانا تھا ۔ بلکہ میرے ساتھ استاد صادق نے بھی مارا جانا تھا ۔ کلو میٹر بھر سفر طے کرنے کے بعد میں تھوڑا سا رکا ،سمال پیک سے نقشہ نکال کر میں نے اپنی سمت درست کی اور پھر چل پڑا۔
-
جلد ہی مجھے امدادی نشان نظر آ گیا۔یہ چیڑ کا ایک بلند درخت تھا جس کے تنے پر میں نے جاتے وقت مخصوص نشان لگایا تھا۔وہ درخت نظر آتے ہی میرے لیے رستے کی شناخت آسان ہو گئی تھی ۔ اس درخت سے دو سو قدم جنوب کی جانب ایک چھتری نما درخت جو ذرا سا مشرق کی جانب جھکا ہوا تھا ، نشانِ راہ تھا ۔چھتری نما درخت کے بعد چیڑ کا ایک ٹوٹا ہوا درخت اسی سیدھ میں موجود تھا ۔آسمانی بجلی گرنے کی وجہ وہ درخت نصف تنے سے کٹ گیا تھا ۔ایک نشان مل جانے کے بعد باقی نشان ملتے چلے گئے ۔ٹوٹے ہوئے تنے والے درخت سے آگے مجھے پندرہ بیس منٹ لگے اور اس کے بعد میں ٹھیک اس مقام تک پہنچ گیا تھا جہاں میں نے استاد صادق کو چھوڑا تھا ۔
-
جاری ہے
- (قسط نمبر 1)
- ریاض عاقب کوہلر
- ایک ایسے نشانہ باز کے ہنگامہ خیز شب و روز۔جس کی مہارت اس کے لیے وبال جان بن گئی تھی ۔
- اس دو شاخے پر بیٹھے مجھے بارہ گھنٹے ہونے کو تھے ۔میں بس اپنے ہاتھ پاوں کو محدود حرکت دے کر اپنے اعضاءکو سُن ہونے سے بچا سکتا تھا ۔اس سے زیادہ حرکت کرنے کی عیاشی میری قسمت میں نہیں تھی ۔لیکن یہ سب میرے لیے اتنا زیادہ بھی مشکل نہیں تھا کہ مجھے اپنے فرض سے باز رکھ سکتا ۔دوران ٹریننگ میں چھتیس ،چھتیس گھنٹے اس سے بھی محدود جگہ پر بیٹھ کر گزار چکا تھا ۔بلکہ ایک مرتبہ تومجھے اڑتالیس گھنٹے گزارنے پڑ گئے تھے ۔
- لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ ٹریننگ اور حقیقت میں زمین ،آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ٹریننگ ہوتی ہی غلطیاں سدھارنے کے لیے ہے جب کہ حقیقت میں غلطی کرنے کا مطلب اپنی جان گنوانا ہوتا ہے۔ خاص کر ایک سنائپر کے لیے غلطی کا تصور ہی محال ہے ۔ہمارے اساتذہ کہا کرتے تھے کہ ”سنائپر کے پاس فائر کرنے کے لیے صرف ایک گولی ہوتی ہے ۔اگر وہ گولی ہدف کو نہ چھو سکے تودردناک موت سنائپر کا مقدر بن جایا کرتی ہے ۔“ میرے پسندیدہ استاد، راؤ تصور کا قول اس بارے اور بھی متشدد تھا ۔ان کے مطابق سنائپر کے پاس فائر کرنے کے لیے دو گولیاں ہوتی ہیں ،پہلی گولی ہدف کے لیے اور اگر وہ خطا ہوجائے تو دوسری گولی اپنے لیے ، کیونکہ دشمن کے ہاتھ آنے کا مطلب زندہ درگور ہونا ہوتاہے۔
- البتہ گولی کے نشانے پرلگنے کی صورت میں ایسی افراتفری اور انتشار پھیلتا ہے کہ سنائپر کی طرف لوگوں کا دھیان بٹ جاتاہے ۔یوں بھی سنائپر کا ہدف اہم شخصیات ہی کو نشانہ بنانا ہوتا ہے ۔لیکن عملی زندگی میں آنے کے بعد میں یہ کہنے میں حق بہ جانب ہوں کہ اس کے بر عکس ہونا بھی ممکن ہے ۔ کیونکہ ایک بار ہمارا ایک ساتھی ناکام فائر کرنے کے بعد بھی اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔اور اس کی وجہ اس کا آہنی ارادہ ، بہترین کیمو فلاج اور نشانہ بازی میں اعلا درجے کی مہارت تھی۔گو اصل ہدف خوش قسمتی سے بچ گیا تھا ،مگراس کے آٹھ نو محافظ ہمارے سنائپر نے چن چن کر مار ڈالے تھے ۔مجبوراََ دشمن کو سنائپر پکڑنے سے زیادہ اپنی جان بچانے کی فکر ہوئی اور وہ مزید کمک کی تلاش میں میدان چھوڑ کر بھاگ گئے ان کی واپسی تک ہمارا ساتھی وہاں سے غائب ہو چکا تھا ۔
- درحقیقت ایک سنائپر کو نشانہ بازی میں مہارت کے ساتھ ذہنی طور پر بھی چاق چوبند اور ہوشیار ہونا چاہیے ،تاکہ حالات کے مطابق بہتر فیصلہ کر سکے ۔اس کے ساتھ اسے چھپنے کی جگہ کا چناو کرتے وقت وہاں سے فرار ہونے کے رستوں کو بھی نگاہ میں رکھنا چاہیے ،کہ کسی بھی ناگہانی صورت حال میں وہاں سے بھاگ کر اپنی جان بچا سکے ۔
- اس وقت میرے ہاتھ میں آسٹریا کی بنی ایس ایس جی رائفل تھی ۔جسے سٹائیر سنائپر رائفل کہتے ہیں ۔گو آج اس سے کئی گنا زیادہ بہترین اور معیاری رائفلیں دستیاب ہیں ،مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی افادیت اچھی رائفلوں کی موجودی میں کم ہوجائے ۔اس سے آٹھ سو گز تک کسی آدمی کو آسانی سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔اس کی میگزین میں پانچ گولیوں کی گنجایش ہوتی ہے لیکن ہر بار فائر کرنے کے بعد رائفل دوبارہ کاک کرنا پڑتی ہے۔اس وقت میں نے جس جگہ کا انتخاب کیا تھا وہاں سے ہدف کا فاصلہ سات سو گز بنتا تھا ۔
- سبز درخت کی مناسبت سے میں نے اپنے لباس کے اوپر سبز رنگ کا گِلی سوٹ پہنا ہوا تھا۔گِلی سوٹ ،سنائپر کاوہ مخصوص لباس ہوتا ہے جو اسے علاقے کی مناسبت سے چھپنے میں مدد دیتا ہے ۔ صحرائی علاقے میں ریتلے رنگ کاگِلی سوٹ جو خشک جھاڑیوں سے میل کھائے ،بنجر اور خشک علاقے میں مٹیالے رنگ کا گِلی سوٹ مکمل برفیلے علاقے میں سفید رنگ کا گِلی سوٹ اور سرسبز علاقے میں گہرے سبز رنگ کا گِلی سوٹ سنائپر کو چھپنے میں مدد دیتا ہے۔یوں بھی سنائپنگ میں چھپنے کی اہمیت اتنی ہی اہم ہے جتنی ہدف کو نشانہ بنانے کی ،کیونکہ خود کو چھپا کر ہی ایک سنائپر ہدف تک رسائی حاصل کر سکتا ہے ۔روانہ ہونے سے پہلے ہی سنائپر نے منصوبہ بندی کی ہوتی ہے کہ وہ کس قسم کا گِلی سوٹ ساتھ لے کر جائے گا ۔ بعض اوقات اسے منصوبے کے مطابق چھپنے کی جگہ نظر نہیں آتی ،ایسی حالت میں وہ وقتی طور پر گھاس پھوس درختوں کے پتوں یا اپنے جسم کو کیچڑ میں لت پت کر کے علاقے کی مناسبت سے اپنا کیمو فلاج کر لیتا ہے۔
- میں نے پشت پر بندھی پانی کی بوتل کے پلاسٹک پائپ کو منہ میں لے کر تھوڑا سا پانی پیا ۔ موسم کافی خوش گوار تھا ۔ورنہ تو گرمی سنائپر کے لیے کا اذیت کا باعث بنتی ہے ۔اسی طرح پانی ختم ہونے کی صورت میں پیاس کی زیادتی بھی ایک مستقل عذاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔
- ٹیلی سکوپ سائیٹ میں جھانک کرمیں دائیں بائیں کے علاقے کو دیکھنے لگا۔اطراف میں چھدرے چھدرے درخت پھیلے ہوئے تھے ۔میرے ہدف نے دائیں جانب سے نمودار ہونا تھا ، مگر میں اس سمت کی دور تک نگرانی نہیں کر سکتا تھا کہ میں نے اپنی مچان بنانے کے لیے موڑ کے قریب جگہ کو پسند کیا تھا ۔وہاں سے موڑ تک کا فاصلہ قریباََ دو کلو میٹر بنتا تھا ۔
- میں نے آنکھیں بند کرکے ایک لحظے کے لیے دو شاخے کے ساتھ سر ٹکا دیا۔ہلکی سی غنودگی کا احساس ہوا اور میں سر جھٹک کر نیند کو بھگانے لگا ۔ذرا سی نیند بھی مجھے تکمیلِ مقصد سے غافل کر سکتی تھی ۔ ٹریننگ کی ابتدا ہی میں ہمیں جوڑیوں کی صورت میں ہر کام کرنا سکھایا گیا تھا،کیونکہ سنائپرزکا جوڑیوںکی صورت کام کرنانہایت ہی مفید ہوتا ہے ۔ اس مشن میں میرا ساتھی حوالدارصادق تھا ، مگر بد قسمتی سے سرحد پار کرتے ہوئے اس کے پاو ¿ں میں موچ آ گئی تھی اورمجھے مجبوراََ اسے یہاں سے چند میل پیچھے سرحد کی جانب ایک محفوظ مقام پر چھوڑ ناپڑ گیا تھا۔وہ مجھ سے سینئر تھا، بلکہ میرا استاد بھی تھا۔اور اس مشن کی تکمیل کی اصل ذمہ داری اسی کے کندھوں پر تھی۔پاو ¿ں میں موچ آنے کے بعد وہ واپسی کے حق میں تھا مگر میں اکیلا جانے پربہ ضد ہوا کہ میرا پہلا مشن تھا اور پہلی بار ہی منہ اٹھا کے واپس ہو جانے میں مجھے سبکی محسوس ہو رہی تھی ۔
- امید تھی میری واپسی تک اس نے چلنے کے قابل ہوجانا تھا۔میں نے کلائی پر بندھی گھڑی پر نگاہ دوڑائی۔ گھڑی کی سوئیاں ساڑھے چھے کا ہندسہ عبور کر رہی تھیں ۔میں صبح پانچ بجے سے پہلے درخت پر سوار ہوا تھا ۔اس وقت سورج غروب ہونے کی مکمل تیاری کر چکا تھا۔یقینا میرے ہدف کی آمد اگلی صبح تک کے لیے ملتوی ہو گئی تھی ،کہ اس علاقے میں رات کی حرکت نہ ہونے کے برابر تھی ۔میں نے آخری بار دائیں بائیں دیکھا اور ہاتھ پھیلا کر انگڑائی لینے لگا ۔مزید چند منٹ میں نے اپنے مختلف اعضاءکو حرکت دے کر سستی کوبھگایا اور پھر سمال پیک سے بھنے ہوئے چنے نکال کر کھانے لگا ۔ چنے کھا کر میں نے پانی پینے کے لیے واٹر پائپ کو منہ لگایا تو دو گھونٹ سے زیادہ پانی نہ مل سکا ۔ میں آتے وقت ایک چشمہ تاڑ آیا تھا، مگر وہاں تک جانے کے لیے مجھے اندھیرا ہونے کا انتظار کرنا تھا ۔دشمن کا علاقہ تھا میری نقل و حرکت کسی کی نگاہ میں آنے کا مطلب ،مشن سے ہاتھ دھو بیٹھنا تھا ۔
- اندھیرا ہوتے ہی میں درخت سے نیچے اتر آیا ۔سمال پیک سے امریکن نائیٹ ویژن سائیٹ نکال کراس کے ساتھ لگے تسموں کی مدد سے سائیٹ آنکھوں پر باندھ لی ۔سائیٹ آن کر تے ہی اس کا اندرونی پیٹرن روشن ہوا اور مجھے ہر طرف ہلکا سبز دکھائی دینے لگا ۔اندھیری رات میں وہ سائیٹ مجھے بارہ ، تیرہ تاریخ کے چاند کے بہ قدرارد گرد کا علاقہ روشن دکھا رہی تھی ۔رائفل کندھے سے لٹکا کر میں نے پسٹل ہاتھ میں پکڑ لیا کیونکہ سنائپر رائفل سے تیزی سے فائر کرنا ممکن نہیں ہوتا،ہر سناپر اپنے ساتھ سنائپر رائفل کے علاوہ کوئی اچھی ساخت کا پسٹل ضرور رکھتا ہے تاکہ بہ وقت ضرورت اسے کام میں لا سکے ۔ پسٹل کی نال پر سائیلنسر فٹ تھا ۔تیس راونڈ کی لمبی میگزین لگا کر گلاک نائنٹین کسی بھی طرح کلاشن کوف سے کم مفید نہیں تھا۔ایک سنائپر کو سنائپر رائفل کے ساتھ پستول کے استعمال میں بھی مہارت حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے اور بلاشبہ میں پستول کے استعمال میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔
- چشمے کی طرف قدم بڑھانے سے پہلے میں نے فطری تقاضا پورا کیا۔اور پھر چشمے کی طرف بڑھ گیا ۔وہ پہاڑی علاقہ تھا ۔جولائی کے مہینے میں بھی موسم اچھا خاصا سرد تھا ۔دن کی روشنی میں دور نظر آنے والی اونچی چوٹیوں پر برف کی سفیدی دیکھی جا سکتی تھی۔گو دن کو سورج کی تمازت ماحول کو کافی حد تک گرما دیتی تھی مگر یہ حدت بھی خوشگوار اثر لیے ہوئے ہوتی تھی ۔چشمہ مچان سے قریباََ ڈیڑھ کلو میٹر دور تھا۔ اس قریباََ ڈیڑھ کلو میٹر میں پچیس تیس گز کی کمی بیشی ہو سکتی تھی اس سے زیادہ نہیں ،کیونکہ ایک سنائپر کے لیے فاصلوں کا اندازہ لگانا بیکار کا مشغلہ نہیں ٹریننگ کا حصہ ہوتا ہے ،جو بعد کو عملی زندگی میں کام آتا ہے ۔
- اطراف کا جائزہ لیتے ہوئے میں نارمل رفتار سے چشمے کی طرف بڑھتا گیا ۔جنگلی جانوروں سے مڈ بھیڑ ہونے کا خطرہ نہ ہونے کے برابر تھا ۔گو اس علاقے میں کبھی کبھار ریچھ اور شیرنظر آ جاتے ہیں مگر ایسا واقعہ خال ہی پیش آتا ہے ۔ البتہ وہاںلومڑ کثیر تعداد میں موجودہیں۔ دشمن کے گشتی دستے بھی چونکہ پہلے سے موجود رستوں پر گشت کرتے رہتے تھے اس لیے ان کی طرف سے بھی میں بے فکر تھا ۔لیکن کسی بھی قسم کی انہونی ،اچانک سر پر پڑنے والی افتاد کا گمان ،اس کے ساتھ رات کا اندھیرا ،انجان علاقہ ،دشمن کی سر زمین اور تکمیل مقصد سے پہلے کسی حادثے کا خطرہ اور اس جیسے کئی ایک احساسات بہ ہر حال میرے دل میں ضرور جاگزیں تھے۔
- ہلکی ہلکی ہوا چلنا شروع ہو گئی تھی ۔یہ ہوا سردی بڑھانے کا سبب بنتی ہے ۔کیونکہ یہ برفیلی چوٹیوں سے گھوم پھر کر یہاں تک پہنچتی ہے ۔چشمے کے قریب پہنچ کر میں بیٹھ گیا اور ہاتھوں کا اوک بنا کر پانی پینے لگا۔نہایت ٹھنڈا اور شیریں پانی تھا ۔خوب سیر ہونے کے بعد میں نے سمال پیک سے پلاسٹک کی بوتل نکالی اور بھرنے لگا۔بوتل بھر کر میں نے سمال پیک میں رکھی اور واپس چل پڑا ۔لیکن واپس چلنے سے پہلے میں نے قطبی ستارے کو دیکھ کر سمت کا تعین ضروری سمجھا تھا ۔گو میرے پاس کمپاس بھی موجود تھا لیکن آسمان صاف ہونے کی وجہ سے اس کی ضرورت مجھے محسوس نہیں ہوئی تھی ۔
- ایک سنائپر کے ضروری سامان میں کمپاس ،دوربین،نائیٹ ویژن سائیٹ ،نقشہ ، چاقو،رسی، ونڈ میٹر،ٹارچ ،لائیٹر یا ماچس اوروائر کٹّروغیرہ کی موجودی نہایت ضروری ہے ۔
- ٭٭٭
- واپس جاتے ہوئے میرے ذہن میں اپنے سینئر کی ہدایات اجاگر ہوئیں ۔جو اس نے مشن پر روانہ ہونے سے پہلے ہمیں دی تھیں ۔
- ”اٹھائیس یا انتیس جولائی کواس علاقے میں بریگیڈئر پرکاش کی آمد متوقع ہے ۔“اس نے دیوار پر ٹنگے بڑے سے نقشے پر سبز رنگ کے لیزر پوائنٹر کی روشنی سے ایک مخصوص جگہ کی نشان دہی کی ۔
- ”اور یہ وہی بد بخت ہے جس کے حکم سے اس سرحد ی پٹی پرآئے روز گولہ باری جاری رہتی ہے ۔“اس نے مخصوص رستے کی نشان دہی کے ساتھ نقشے کے ساتھ لٹکی ایک بڑی سی تصویر پرلیزر پوائنٹر کی روشنی ڈالی ، وہ تصویر بریگیڈیر پر کاش کی تھی ۔ہمارے سینئر کی گفتگو جاری رہی ۔
- ”سرحد کے سکون کو تہ وبالاکر دیاہے خبیث نے ۔گو اس بے مقصد گولہ باری سے سرحدی علاقے کے مظلوم شہری ہی بے سکون رہتے ہیں بلکہ، کئی ایک کے زخمی اور جاں بہ حق ہونے کی خبریں بھی تواتر سے ملتی رہتی ہیں۔اس لیے ایسے شر پسند جو امن معاہدے کو خاطر میں لائے بغیر اپنی کارروائیاں جاری رکھیں ،زندہ رہنے کا حق کھو دیتے ہیں ۔یہ ایسا خبیث شخص ہے کہ اس کی اپنی سپاہ اس سے سخت نالاں ہیں۔اسے یہاں تعینات ہوئے چار ماہ ہونے کوہیں اور ان چار ماہ میں شاید ہی کوئی دن ایساگزرا ہو جب اس کے حکم سے دشمن کی توپیں خاموش ہوئی ہوں ۔اب ہمیں باوثوق ذرائع سے خبر ملی ہے کہ یہ اگلے مورچوں کے معاینے کے لیے ان دو تاریخوں میں آنے والا ہے ،یقینا اس بد بخت نے کوئی نئی شرارت سوچنی ہو گی۔ ہم اس کی شرارتوں سے خوف زدہ نہیں ،لیکن شرارت کرنے والے کا سدّ باب اگر ممکن ہو تو سستی نہیں کرنی چاہیے ۔اور صادق!....آپ سینئر ہیں۔ اس سے پہلے بھی کئی بار سرحد پار جا کر کامیابی سے ہم کنار ہو چکے ہیں۔ جبکہ ذیشان حیدرپہلی مرتبہ کسی مشن پر جا رہا ہے ۔اسے اچھی طرح سمجھاناتاکہ آیندہ یہ بھی آپ کی طرح ایک اچھے سنائپر کے طور پر سامنے آ سکے ....یوں بھی یہ آپ کا ہونہار شاگرد ہے ۔ اور ذیشان!....آپ خوش قسمت ہیںکہ پہلا مشن اپنے استاد کی زیرِ نگرانی پورا کرو گے۔“
- اب وہ سینئر ،تجربہ کار سنائپر اور میرا استادجس کے سر پر تکمیل ِ مشن کا بوجھ تھا یہاں سے قریباََ پانچ کلو میٹر دور بے بسی کی حالت میں پڑا تھا ۔اور مشن کی ساری ذمہ داری ایک نو آموز سنائپر یعنی مجھ پر آن پڑی تھی ۔گو زخمی ہونے کے بعد استادصادق نے مشن کو ادھورا چھوڑ کر واپس جانے کا مشورہ دیا تھا، مگر میرے اصرار پر اسے ضروری ہدایات اور نیک خواہشات کے ساتھ مجھے رخصت کرنا پڑا تھا ۔وہ دو گھنٹے تک مجھے سمجھاتا رہا تھا اور حقیقی بات ہے مجھے اپنی ساری ٹریننگ سے استاد صادق کی آخری ہدایات زیادہ موّثر لگی تھیں ۔کیونکہ یہ ہدایات عملی زندگی کی عین ابتداتھیں۔
- درخت کے قریب پہنچ کر میں آگے نکلتا چلا گیا، جس جگہ ہدف کو نشانہ بنانا تھا وہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں قدرتی طور پر ایک دو پتھر ابھرے ہوئے تھے اس طرح کہ اس رستے سے گزرنے والی گاڑیوں کے لیے ایک قدرتی سپیڈ بریکر سا بن گیا تھا ۔اس جگہ سے پچاس ساٹھ گز مخالف سمت میں ایک جگہ میں نے IED (Empervis Explosive Divice)دو پتھروں کے درمیان ،زمین میں اس طرح دبائی ہوئی تھی کہ درخت پر بیٹھ کر اسے نشانہ بنا سکوں ۔اور اس کا مقصد ہدف کو نشانہ بنانے کے بعد برگیڈیر پرکاش کے محافظوں کو وقتی طور پر خوف زدہ کرنا اور ان کی توجہ کوکسی اور جانب پھیرنا تھا ۔اور حقیقت میں ہدف کو نشانہ بنانے کے بعد اس IEDکو ہِٹ کرنا ناممکن نہیں تو بہت زیادہ مشکل ضرور تھا ۔اور ایک سنائپر کی اصل پہچان یہی ہوتی ہے کہ اسے ہمیشہ اپنے نشانے پر اعتماد ہوتا ہے ۔
- آج اٹھائیس جولائی کا دن گزر گیا تھا اور کل بریگیڈیر پرکاش کی آمد یقینی تھی ۔میں نے دیکھ بھال اور خوب سوچ سمجھ کردشمن کی آمد کی سمت سے بائیں جانب ایک درخت پر عارضی مچان بنائی تھی ۔ بائیں سمت جگہ چننے میں ایک تو یہ فائدہ تھا کہ بریگیڈئر پرکاش نے ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا ہونا تھااس لیے لامحالہ اس نے بائیں سائیڈ پر ہونا تھا۔دوسرا مجھے فرار کے لیے بھی یہی سمت مطلوب تھی ۔ اس جانب درخت بھی کچھ زیادہ تھے ۔ IEDکے ٹھیک لگا ہونے کا اطمینان کر کے میں واپس درخت کے پاس آیا اور مچان میں لیٹ کر سو گیا ۔خود کو رسے سے باندھنا مجھے نہیں بھولا تھا ،ورنہ دوسری صورت میں نیچے گر کر میں زخمی یا ہلاک ہو سکتا تھا۔
- سارے دن کی تھکن اور بے آرامی کے باوجود میں رات کو اچھی طرح نہیں سو سکا تھا باربار آنکھ کھل جاتی ،ایک بار تو سیٹی کی آواز سن کر میں بے ساختہ چونک کر اٹھ بیٹھا ۔اور دوبارہ سیٹی بجنے پر میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی تھی کیونکہ غنودگی بھاگتے ہی میں نے آواز کو پہچان لیا تھا ۔یہ اس علاقے میں موجود ایک بڑے سائز کے چوہے کی آواز تھی جو جسامت میں بلی سے بھی بڑا ہوتا ہے ۔اس کا مقامی نام ترشون ہے ۔اپنے بل کے دہانے پر کھڑا ہو کر جب یہ زور دار آواز نکالتا ہے تو بالکل یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سیٹی بجائی جا رہی ہو ۔
- صبح تڑکے اٹھ کر میں ضروریاتِ فطرت سے ہم کلام ہوا اور پھر درخت پر چڑھ کر اونگھنے لگا ، دشمن کی آمد بعد از دوپہر متوقع تھی کیونکہ اس رینک کے آفیسر کا صبح تڑکے جاگنا ایک مذاق ہی معلوم ہوتا ہے ۔ جاگنے کے بعد بہ ذریعہ ہیلی کاپٹر بریگیڈ ہیڈکواٹر میں پہنچنا اور پھر وہاں سے اگلے مورچوں کے معاینے کے لیے بائی روڈ آنے میں اتنی دیر تو بہ ہر حال ہو ہی جانی تھی ۔مگر اس کے باوجود بالکل ہی بے پروا ہو جانا مناسب نہیں تھا ۔دھوپ کے تیز ہوتے ہی میں سنبھل کر بیٹھ گیا وقفے وقفے سے میں دوربین کے ذریعے ارد گرد کے علاقے کا جائزہ بھی لے لیتا تھا ۔جونھی سورج نے نصف سفر طے کیا ،مطلوبہ سمت سے ایک جیپ نمودار ہوئی میں نے دوربین آنکھوں سے لگا لی ،جیب کا نظارہ بالکل قریب ہو گیا تھا ۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے دونوں جوانوں کی شکل برگیڈیر پرکاش سے بالکل میل نہیں کھاتی تھی ۔تھوڑا مزید نزدیک آنے پر ان کے رینک بھی نظر آنے لگے ۔ڈرائیور کے ساتھ درمیانی رینک کاایک آدمی بیٹھا تھا جبکہ عقبی جانب تین آدمی کلاشن کوفوں سے لیس کھڑے ہوئے تھے ۔جیپ سست رفتار ی سے چل رہی تھی ،یقینا یہ بریگیڈیر پرکاش کے آنے سے پہلے رستے کی دیکھ بھال کر رہے تھے ۔میرے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے تھے ۔وہ اسی سست رفتاری سے اس کچے رستے پر سے گزرتے چلے گئے ۔ مجھے یقین تھا کہ انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے کو ہیں ۔اپنے کیمو فلاج کا بغور جائزہ لے کر میں بریگیڈیر پرکاش کے استقبال کے لیے تیار ہو گیا ۔گھٹنوں پر رکھی رائفل میں نے ہاتھوں میں تھام لی تھی ۔ٹیلی سکوپ سائیٹ کے سامنے اور عقبی طرف کے گلاس کور اتار کر میں نے موڑ کی سمت شست باندھ لی ۔سائیٹ کے اند ر تین گہری سیاہ لکیریں نظر آ رہی تھیں ،دو لکیریں دائیں بائیں سے درمیان کی طرف آ رہی تھیں اور ایک قدرے موٹی لکیرتھی جو نیچے سے اوپر کی جانب اٹھ کر جا رہی تھی ۔موخّر الذکر لکیر نیچے سے موٹی تھی اوراس کا اوپری سرا بالکل باریک تھا ۔تینوں لکیریں درمیان سے ذرا پہلے ختم ہو جاتی تھیں ۔اگر نیچے والی لکیر کو اوپر کی طرف مکمل اٹھا دیا جاتا تو سائیٹ کے اندر بڑا سا جمع کا نشان بن جاتا۔اسی عمودی لکیر کا اوپری سرا میرا شستی نقطہ تھا ۔
- ٭٭٭
- دشمن کی گشتی جیپ کو گزرے گھنٹا گزرا ہوگا کہ ایک دم موڑ سے تین گاڑیاں نمودار ہوئیں ، دو کھلی چھت کی جیپیں اور درمیان میں چھت والی ٹویوٹا جیپ تھی ۔درمیانی رفتار سے چلتے ہوئے تینوں گاڑیوں نے کلو میٹر بھر کا فاصلہ طے کیا تھا کہ اچانک مجھے ٹویوٹا جیپ کے شیشوں کا کالا رنگ نظر آیا۔میرا دل بیٹھنے لگا ۔ہدف کو میں نے سائیڈ سے نشانہ بنانا تھا اور کالے شیشوں کی وجہ سے ہدف کا نظر آنا ممکن نہیں تھا۔ اس ایک حل تو یہی تھا کہ میں سامنے سے جیپ کو نشانہ بناتا،مگرایسی صورت میں ہدف کا فاصلہ مجھ سے بڑھ جاتاجس کے باعث درست نشانہ لگانا ممکن نہیں تھا ۔اس رائفل سے آٹھ سو میٹر تک ہی درست نشانہ لگایا جا سکتا تھا ۔اگر آٹھ سو میٹر سے فاصلہ بڑھ جاتا پھر نشانے کی درستی یقینی نہیں تھی ۔میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس منحوس کی جیپ کالے شیشوں والی ہو گی ۔یوں بھی آرمی میں جیپوں کے کالے شیشے اس سے پہلے میری نظر میں نہیں گزرے تھے ۔ایک دم مجھے اپنا مشن ناکام ہوتا دکھائی دیا ۔ میرے پاس سوچنے کے لیے دو تین منٹ سے زیادہ وقت نہیں تھا ۔بریگیڈیر پرکاش نے واپسی کے لیے دوسرا رستا اختیار کرنا تھا جو یہاں سے پندرہ بیس کلومیٹر دور تھا ۔بریگیڈیر پرکاش سے پہلے وہاں تک پہنچنا میرے لیے ناممکن تھا۔اگر میں بہت زیادہ تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتا اور کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچ بھی جاتا تب بھی خود کو چھپا کر دشمن کے خلاف کوئی پروگرام سوچ کر اس پر عمل پیرا نہیں ہوسکتا تھا ۔
- استاد صادق نے آخری نصیحت میں کہا تھا کہ ۔”ایک تربیت یافتہ سپاہی کامشن میں ناکام ہونے کے بعد زندہ واپس لوٹنا بھی آدھی کامیابی ہوتی ہے ۔“مگر میں اپنے پہلے مشن میں آدھی کامیابی پر اکتفا نہیں کر سکتا تھا ۔گاڑیوں کا فاصلہ ہر گزرتے سیکنڈ کم ہوتا جا رہا تھا ۔رائفل کی بیرل پر سائیلنسر فٹ تھا اور فائر ہوتے وقت صرف ہلکی سی ”ٹھک “ کی آواز اٹھنا تھی جو فائرکی جگہ سے زیادہ سے زیادہ چند گز دور ہی سنی جا سکتی تھی ۔
- اور پھر فیصلہ کن لمحا آن پہنچا ۔اگلی جیپ میرے سامنے سے گزری۔بریگیڈیر کا ٹویوٹا اس سے بیس پچیس گز پیچھے تھا میں سیکنڈ بھر میں ایک نتیجے پر پہنچا اور شست لیتے ہوئے ٹریگر دبا دیا ۔” ٹھک“ کی آواز کے ساتھ بلٹ نے مزل کو چھوڑااور اسی لمحے سب سے آگے والی جیب کا پچھلا ٹایرزور دار دھماکے سے پھٹ گیا تھا ۔جیپ ہلکے سے لہرا کر رک گئی ۔جیپ میں کھڑے باوردی ہتھیار بردار جوان چھلانگ لگا کر نیچے اترے اور چاروں طرف سرسری نظر دوڑا کر ٹایر کی طرف متوجہ ہو گئے تھے ۔تینوں گاڑیاں رک گئی تھیں ۔سب سے آخری جیب میں موجود ہتھیار بردار جوانوں نے بھی جیپ سے اتر کر اطراف میں پوزیشن اختیار کر لی تھی ۔
- اس دوران میں نے کاکنگ ہینڈل کو کھینچ کر رائفل اس احتیاط سے دوبارہ کاک کر لی تھی کہ خالی کیس نیچے زمین پر نہ گرنے پائے ۔پتھریلی زمین پر تانبے کا کیس اچھی خاصی آواز پیدا کر کے دشمن کو متوجہ ہونے کا باعث بن سکتا تھا ۔
- اگلی جیپ کے ڈرائیور نے جیپ کی عقبی طرف بندھا فالتو ٹایر کھولنا شروع کر دیا تھا ۔
- اسی وقت میری دعائیں رنگ لائیں اورمیری ترکیب کو کامیابی کی جھلک نظر آئی۔بریگیڈیر پرکاش نے اپنی جانب کا شیشہ نیچے کر کے سر باہر نکالا،شاید وہ اگلی جیپ والوں کو کوئی ہدایت دینے والا تھا یا خالی ایک نظر ہی باہردیکھنا چاہتا تھا ۔مجھے اس کے ارادے سے کوئی غرض نہیں تھی ۔شیشے کے نیچے ہوتے ہی میری انگلی نے ایک جھٹکے سے ٹریگر کی آزادنہ حرکت کو پورا کرتے ہوئے مکمل ٹریگر دبا دیا ۔سر میں لگنے والی گولی چیخنے کا موقع نہیں دیا کرتی ۔طاقتور بلٹ نے اس کا آدھا سر اڑا دیا تھا ۔
- ڈرائیور بلند آواز میں چیخا اور جیپ کا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔باقی سب بھی اس طرف متوجہ ہو گئے تھے ۔
- میں نے ان سے نظر ہٹا کرایک بار پھر رائفل کاک کی اور IEDکی جگہ پر شست باندھ کر تیسری گولی فائر کر دی ۔کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا اسی وقت تمام ہتھیار برداروں نے اچانک فائر کھول دیا تھا ۔کلاشن کوفوں کے فائر کی تڑتڑاہٹ سے ماحول گونج اٹھا تھا ۔چونکہ کسی کوابھی تک میرے چھپنے کی جگہ کے بارے معلوم نہیں ہوا تھا اس لیے وہ چاروں طرف گولیاں برسا رہے تھے ۔
- جیپ کی عقبی نشست کھول کر دو آفیسر باہر آئے اور تمام کو اندھا دھند فائر کرنے سے منع کرنے لگے ۔یقینا بریگیڈیر پرکاش کے بعد وہی دونوں سینئر تھے ۔
- ہمارے استاد صوبیدار راو تصور کہا کرتے تھے کہ کسی بھی فوجی دستے کو اگر سراسیمہ اور حواس باختہ کرنا ہوتو ان کے کمانڈر کو ختم کر دو ۔کمانڈر کی غیر موجودی میں وہ دستہ بھیڑوں کا ریوڑ بن جائے گا ۔“
- اپنے استاد کا سنہری قول اس وقت میرے دماغ میں گونجا اور میں نے ٹویوٹا جیپ سے برآمد ہونے والے دونوں آفیسرز میں سے ایک کا نشانہ لے کر فائر داغ دیا ۔وہ اچھل کر نیچے گرا۔دوسرا ایک لمحے کے لیے شاک کی کیفیت میں آ گیا تھا ۔ موقع غنیمت جانتے ہوئے میری رائفل نے میگزین میں موجود آخری گولی اُگلی اور دوسرا بھی اس کے قریب گر کربن پانی کی مچھلی کی طرح پھڑکنے لگا ۔
- میں نے سرعت سے میگزین تندیل کی اس وقت وہاں آٹھ بندے زندہ نظر آ رہے تھے ۔ان میں سے ایک کی کلاشن کوف کا رخ انھی درختوں کی طرف تھا جہاں میں چھپا ہوا تھا ۔میں نے دفاعی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے پہلے اسی سے جان چھڑانے کا سوچا اور اگلے لمحے وہ مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہا تھا ۔اصولاََ مجھے بریگیڈیر پرکاش کے مرتے ہی وہاں سے فرار ہو جانا چاہیے تھا،مگر دشمن کی کم تعداد اور اپنی گولیوں کو مسلسل نشانے پر لگتا دیکھ کر میرا حوصلہ بڑھ گیا تھا ۔بہ قول استاد محترم سنائپر کی مثال اندھیرے کے تیر جیسی ہوتی ہے ،کہ جانے کس وقت کہاں سے نکل کر گردن سے پا ر ہو جائے ۔نظر نہ آنے والے دشمن کا خوف ،دکھائی دینے والے دشمن سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے ۔
- اگلی ٹھک نے ایک اور کی زندگی چھین لی تھی ۔
- کوئی چیخا ....”بھاگو ،ہم دشمن کے گھیرے میں ہیں ۔ایک آدمی نے آخری جیپ سٹارٹ کر کے ریورس گیئر لگایا ،مگر چند گز سے زیادہ پیچھے ہٹنا اسے نصیب نہیں ہو سکا تھا ۔میری چلائی ہوئی گولی نے اسے اسٹیرنگ پر لیٹنے پر مجبور کر دیا تھا ۔باقی آدمی گاڑیوں کا خیال دل سے نکال کر سر پٹ دوڑ پڑے ۔ میری رائفل کی رینج سے نکلنے سے پہلے دومزیدروحیں اپنے فانی جسم سے روٹھ کر محو پرواز ہو چکی تھیں ۔
- وہ سر پٹ موڑ کی طرف بھاگتے جا رہے تھے ۔مسلسل اپنے ساتھیوں کو لاشوں میں تبدیل ہوتا دیکھ کر ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفقود ہو چکی تھیں۔جبکہ میرا حوصلہ آسمان کو چھو رہا تھا ۔ان کے ”آوٹ آف رینج“ ہوتے ہی میں سرعت سے نیچے اترااور درختوں کی آڑ لے کر واپس چل پڑا ۔ عام لباس کے اوپر پہناگِلی سوٹ گو چلنے میں رکاوٹ پیدا کر رہا تھا مگر چھپاو کے لیے بہت ضروری تھا۔[ گلی سکاٹ لینڈمیں استعمال ہونے والی ایک اصطلاح ہے جو ایک زمانے میں اُن خاص داروغوں کے لیے استعمال ہوتی تھی ۔ جو اپنے بادشاہ کی زمینوں میں نا جائز طور پر شکار کھیلنے والوں سے حفاظت کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ گلی گھاس میں مکمل طور پر چھپ کر بلا حرکت پڑے رہتے اور ہرن کا انتظار کرتے۔ مناسب وقت آنے پر کود پڑتے اور اُسے ہاتھوں سے دبوچ لیتے پھر بادشاہ کے حضور پیش ہو کر ہرن کا تحفہ دیتے اور انعام و کرام سے نوازے جاتے ۔ چھپاﺅ تلبیس کے اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے آج کل کے دور میں سنائپر اپنے آپ کو دشمن سے بچانے کے لیے اپنے اردگرد کے ماحول کے مطابق خود کوڈھال لیتے ہیں۔آج کے جدید دور میں گِلی سوٹ نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ مختلف ممالک اعلا درجے کے گِلی سوٹ تیار کر رہے ہیں جوہر علاقے میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک کے سنائپر یہی گِلی سوٹ استعمال کر رہے ہیں]میں گِلی سوٹ اتارے بغیر چلتا گیا ۔وہاں سے میں جتنا جلد غائب ہو جاتا اتنا بہتر تھا ۔جلد ہی دشمن نے اس علاقے کو گھیرے میں لے لینا تھا ،پکڑے جانے کی صورت میں انھوں نے میرے ساتھ جو کرنا تھا اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی عقل بینا کی ضرورت نہیں تھی ۔
- میں نے چشمے والا رستا ہی اختیا کیا تھا ۔چشمے کے قریب رک کر میں نے سیر ہو کر پانی پیا اور واٹر بوتل بھر کر آگے بڑھ گیا۔چشمے سے فرلانگ بھر آگے جا کر اترائی شروع ہو جاتی تھی ۔اترائی شروع ہوتے ہی میری رفتار خود بہ خود بڑھ گئی ۔چونکہ میں باقاعدہ کسی رستے پر نہیں جا رہا تھا اس لیے سمت کی درستی کے لیے میں گاہے گاہے کمپاس پر بھی نظر ڈال لیتا تھا۔
- اونچے ،نیچے اور ٹیڑھے میڑھے رستوں سے گزرکر میں نے تین کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا اور ایک خشک نالے کے قریب پہنچ گیا ۔نالے کے درمیان بارشی پانی کے گزرنے کی وجہ سے ریت ابھر آئی تھی اورساتھ میں چھوٹے بڑے پتھر بکھرے پڑے تھے ۔جھاڑیاں وغیرہ نالے کے کنارے پر موجود تھیں درمیانی علاقہ صاف تھا ۔نالے کی چوڑائی پچاس ساٹھ گز کے بہ قدر تھی ۔اور بد قسمتی سے وہاں سے سات آٹھ سو گز کے فاصلے پر موجود ٹیکری پر انڈین آرمی کے ایک سیکٹر کا بیس موجود تھا جہاں سے نالے کا یہ درمیانی حصہ آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا ۔جھاڑیوں کے اندر لیٹ کر میں نے دوربین آنکھوں سے لگا لی ۔
- بیس پر غیر معمولی چہل پہل دیکھتے ہی مجھے یقین ہو گیا، کہ ان تک بریگیڈیر پرکاش کے ہلاک ہونے کی خبر پہنچ چکی ہے ۔دس آدمیوں کا ایک دستہ مجھے بیس سے نیچے اتر کر نالے کی سمت آتا دکھائی دیا وہ یقینا جائے وقوعہ کی جانب روانہ تھے ۔تمام کے تمام ہتھیاروں سے لیس تھے ۔وہ نالے میں اتر کر میری جانب بڑھنے لگے ۔ان کے پیچھے ایک اور دستہ تھا جو نالے میں آنے کے بجائے سیدھے رستے پر چلتے ہوئے وقوعہ کی جانب بڑھتا گیا ۔یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میں تیز رفتاری سے چلتے ہوئے اس جگہ پہنچ گیا تھا ورنہ یقیناان سے رستے میں مڈبھیڑ ہوتی اور ایسی صورت میں میرا مارا یا پکڑاجانا یقینی تھا ۔میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہیں چھپا رہوں ۔دوربین سمال پیک میں ڈال کر میں جلدی سے جھاڑی کے مزید اندر کھسک گیا ۔جھاڑی کے تنے کے قریب پہنچ کر میں بالکل ساکت لیٹ گیا ۔یوں کہ اپنے سانس کی آواز خود مجھے بھی سنائی نہیں دے رہی تھی ۔مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا تھا جلد ہی ان کی باتوں کی آواز مجھے سنائی دینے لگی ۔وہ پنجابی اور ہندی دونوں زبانوں میں بات کر رہے تھے ۔ پنجابی بولنے والے شایدسکھ تھے ۔ان کے قریب آنے تک جھاڑی کے تنے اور شاخوں پر پھرتے ہوئے چیونٹوں نے میرے بدن پر مٹر گشت شروع کر دی تھی ۔ایسی حالت میں عام بندہ چیونٹوں کو بدن سے دور جھٹکنے سے باز نہیں رہ سکتا ، کیونکہ یہ بہت بے دردی سے کاٹتے ہیں ۔میرے کان کی عقبی جانب اور ناک کی جڑ میں بھی دو نے بڑے مزے سے دانت گاڑ رکھے تھے ،مگر میں نے پلک تک نہیں جھپکی تھی ۔ایسی حالت میں تو سنائپر ایک بچھو کو بھی خود سے دور نہیں جھٹکتا۔
- ٭٭٭
- ”کم از کم آٹھ دس بندے ہوں گے۔“میری سماعتوں سے گزرنے والوں کا پہلا ،مکمل اور واضح فقرہ یہی ٹکرایا تھا ۔
- ”زیادہ بھی ہو سکتے ہیں ۔“ایک دوسری آواز نے اس کی تردید کی تھی ۔وہ جوڑیوں کی صورت میں روانہ تھے ۔اپنے ہتھیار انھوں نے تیاری حالت میں پکڑے ہوئے تھے ۔ایک آدمی نالے کی دائیں اور دوسرا بائیں سمت کی نگرانی کر رہا تھا ۔
- ”یار ! اچھا ہوا ، بریگیڈیر پرکاش سے تو جان چھوٹی ،خجل خوار کر رکھا تھا بے غیرت نے ۔“ یہ دوسری جوڑی کے آدمی آواز تھی ۔
- اس کے ساتھی نے جواب دیا ۔”اس کی تو خیر ہے بلکہ ،میجر سورن کی موت بھی قابل برداشت ہے مگر،کرنل جگجیت سنگھ بہت اچھا انسان تھا ۔“
- ”گھات لگانے والے تو بس بریگیڈئر پرکاش ہی کے لیے آئے ہوں گے مگر........“اس کی آواز معدوم ہوتی گئی اور تیسری جوڑی کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرانے لگی ۔
- ”اگر ان کی تعداد واقعی آٹھ دس ہے تو ہم دس بندے انھیں کیسے روکیں گے؟“
- اس کے ساتھی نے جواب دیا ۔”دوسری پارٹی سیدھے رستے پر جا رہی ہے اور باقی سیکٹرز سے بھی پارٹیاں روانہ ہیں ، سارے علاقے کا گھیراو کرکے تلاشی لی جائے گی۔کمانڈوز پلاٹون بھی بلائی جا رہی ہے ۔“
- چوتھی جوڑی کا ایک آدمی انھی جھاڑیوں میں جہاں میں چھپا ہوا تھا۔رکتا ہوا بولا۔”میرا خیال ہے یہ جگہ مناسب ہے۔“
- اس کے ساتھ نے جواب دیا ۔”اچھا جلدی کرو ،میں آگے جارہا ہوں۔تم فارغ ہو کر آ جانا۔“
- ”ٹھیک ہے ۔“کہہ کر وہ جھاڑی کی آڑ میں آ کر اپنی پینٹ کھولنے لگا ۔
- آخری جوڑی کے ایک آدمی نے مسکرا کرکہا ۔”سریش!....تیری پینٹ ابھی سے ڈھیلی ہو گئی ہے ۔“ اس کے دوسرے ساتھی کا قہقہہ اس کے ساتھ شامل تھا ۔
- سریش جواباََ بولا۔”یار !صبح سے پیٹ خراب ہے ۔اب آپ لوگ مذاق ہی اڑاو گے۔“
- وہ آگے گزرتے چلے گئے ،جبکہ سریش پینٹ کھول کر اطمینان سے بیٹھ گیا ۔اس کا رخ میری جانب تھا ،مگر اس کی نگاہیں اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ تھیں ۔میں اس وقت جھاڑی کا حصہ بنا ہوا تھا ۔ میرے بدن کا کوئی جزو بھی گِلی سوٹ سے باہر نہیں تھا ۔سر پر رکھی ہوئی ٹوپی نے پورے چہرے کو ڈھانپ رکھا تھا ۔مخصوص سیاہ رنگ کی کریم میں نے پورے چہرے پر تھوپی ہوئی تھی ۔سنائپر رائفل پر بھی میں نے سبز رنگ کے کپڑے کی کترنیں اس انداز سے باندھی ہوئی تھیں کہ سوائے رائفل کے دہانے کے کوئی چیز نظر نہیں آ رہی تھی ۔
- اچانک فضا میں وائرلیس سیٹ کی آواز گونجی ، یقینا سریش کا واکی ٹاکی بول رہا تھا ۔
- ”نمبر فائیو !....سینڈ یور لوکیشن اوور۔“
- ”سفید نالا،جنگل موڑ۔اوور۔“ دوسری آواز نے اپنی جگہ بتائی ۔
- یقینا اس نالے کا کوڈ نام ، سفید نالا تھا۔میری موجودہ پوزیشن سے وہ نالاجنوب کی جانب مڑ رہا تھا ۔نالے کی مغربی طرف ان کا سیکٹر بیس تھا ۔ بیس کے نیچے بھی چھدرے چھدرے درخت موجود تھے ، مگر مشرقی طرف کافی گھنّے درخت پھیلے تھے جو نالے کے ساتھ دور تک چلے گئے تھے ۔جنوب کی طرف مڑنے کے بعد نالے کی چوڑائی دگنے سے بھی زیادہ ہو گئی تھی ۔اور درخت بہ تدریج جوانب کی ٹیکریوں تک پھیل گئے تھے ۔ان میں چیڑ و دیار کے بلند بالا درختوں کے ساتھ ساتھ جھاڑی نما درخت بھی موجود تھے ۔ تُنگ کے سدا بہار درخت بھی بہ کثرت بکھرے ہوئے تھے ۔اور انھی درختوں کے جنگل میں ،میں اپنے استاد صادق کو چھوڑ گیا تھا ۔سنائپرز کے نقطہ نظرسے اب یہ علاقہ محفوظ نہیں رہاتھا، مگراپنے ساتھی کو ساتھ لینا نہایت ضروری تھا ۔اگر حوالدارصادق وہاں چھپا نہ ہوتا تو یقینا میں نے نالے نالے میں آگے بڑھ جانا تھا اور دشمن کے اس علاقے کو گھیرنے سے پہلے میں کہیں دور نکل گیا ہوتا۔
- ”اپنے ساتھیوں کو چوکنا ہونے کی ہدایت دے دو ۔اور تمام کو بتا دو کہ یہاں صرف ایک بندے کی موجودی کے آثار ملے ہیں ۔وہ بہت اچھا نشانے باز اورمنجھا ہوا سنائپر ہے۔اس ایک ہی نے ہمارے آٹھ آدمیوں کو شہید کر دیا ہے ،اس لیے احتیاط سے کام لیں ۔اوور“(مسلمانوں کی دیکھا دیکھی دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اپنے جنگ میں ہلاک ہونے والے سپاہیوں کو شہید کہنے لگے ہیں )
- ”راجر ....“نمبر فائیو نے گویا بات سمجھ جانے کا اقرار کیا ۔
- ”کسی بھی چھوٹی سی چھوٹی بات کی فوراََ اطلاع دینا ۔کیپ لسننگ آوٹ۔“احکام دینے والے نے اسے آو ٹ کہتے ہی دوسری پارٹی کو پکارنا شروع کر دیا ۔”نمبر سکس!....سینڈ ،یوور لوکیش اوور۔“
- جواب ملا۔”نالا روڈ جنکش اوور۔“
- ”کاپیڈ میسج،سیم ٹو یو ۔“پوری بات دہرانے کی ضرورت اس نے اس لیے بھی محسوس نہیں کی تھی کہ ،نمبر فائیو سے ہونے والی گفتگو نمبر سکس بھی سن رہا تھا ۔
- ”راجر ۔“نمبر سکس کی طرح سے سمجھ جانے کی اطلاع ملنے پروہ اسے بھی لسننگ پر رکھ کر تیسری پارٹی سے بات کرنے لگا ۔اس مرتبہ اس نے نمبر سیون پکارا تھا ،مگر نمبر سیون کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی یقینا وہ ہم سے دور تھا۔ کنٹرول کی مختلف پارٹیوں کوپکارنے کی آواز فضا میں گونجتی رہی ۔
- گفتگو جاری رہی وہ واکی ٹاکی سیٹ کی طرف متوجہ رہا اور پھر مٹھی میں ریت بھر کر اپنی صفائی کرنے لگا ۔پینٹ باندھتے وقت اس کی نظر غیر ارادی طور پر اسی جھاڑی کی طرف اٹھی رہی جہاں میں چھپا بیٹھا تھا ۔اور اس کی بدبختی کہ میں نے اسے چونکتے دیکھا ۔مسلسل اس جانب گھورنے پر اسے میری ہیئت نے چونکا دیا تھا ۔یوں بھی میں افراتفری میں چھپا تھا اس لیے جھاڑیاں وغیرہ اپنے اوپر نہیں ڈال سکا تھا ۔بیلٹ باندھے بغیر وہ زمین پر پڑے اپنے ہتھیارکی طرف متوجہ ہوا ۔اس کے ہتھیار سنبھالنے تک میں یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ۔
- ”ٹھک “ کی آواز کے ساتھ اس کے سر میں روشن دان کھل گیا تھا ۔وہ نیچے گر کر تڑپنے لگا ۔میں جلدی سے جھاڑی سے باہر نکلا اور اس کی لاش کو گھسیٹ کر جھاڑی میں پھینک دیا ۔اس کا واکی ٹاکی سیٹ مجھے کارآمد لگا ۔واکی ٹاکی سیٹ مع اضافی بیٹری اٹھا کر میں نے پاس رکھ لیا اور پھر جھاڑیوں کی اوٹ میں رہتے ہوئے میں نے اس کے جانے والے ساتھیوں کی طرف نگاہ دوڑائی ،وہ فرلانگ بھر آگے نکل گئے تھے ۔دوربین نکال کر میں نے بیس کی طرف نگاہ دوڑائی ایک آدمی مجھے ٹہلتا ہوا نظر آیا ۔اس جگہ سے نالا عبور کرنے میں دیکھے جانے کا سخت خطرہ تھا ۔میں جھاڑیوں کی آڑ لے کر بیس کی طرف روانہ ہو گیا ۔واکی ٹاکی سیٹ کی آواز کم کر کے سیٹ میں نے آن رہنے دیا تھا ۔
- جلد ہی سیٹ سے سریش کو پکار اجانے لگا ۔
- ”نمبر فائیو ،فار نِک نیم سریش اوور!....نمبر فائیو ،فار نِک نیم سریش اوور!........“وہ بار بار سریش کو پکار رہا تھا ۔پھر جیسے ہی اس نے وقفہ کیا، سیٹ سے ایک دوسری آواز بلند ہوئی ۔(ویسے زیادہ تر قارئین تو جانتے ہوں گے ،مگر جن کا کبھی وائرلیس سیٹ سے واسطہ نہیں پڑا ان کی اطلاع کے لیے بتلاتا جاو ں کہ وائرلیس سیٹ پر جب ایک طرف سے بات ہو رہی ہو تو سننے والا بات نہیں کر سکتا ،یہاں تک کہ بولنے والے کو اوور کہہ کر اگلے کو موقع دینا ہوتا ہے ۔اس ضمن میں یہ بھی یاد رہے کہ کنٹرول اس کو کہتے ہیں جو کسی جگہ موجود تمام پارٹیوں کو کنٹرول کر رہا ہو اور وائرلیس پر پیغام بھیج رہا ہو )
- ”کنٹرول فار نمبر فائیو اوور !“
- ”یس نمبر فائیو فار کنٹرول اوور۔“وہ کنٹرول کو جواب دینے لگا ۔
- ”نمبر فائیو ،نک نیم سریش کہاں گیاہے اورجواب کیوں نہیں دے رہا ؟“
- ”وہ رفع حاجت کے لیے رکا تھا پندرہ بیس منٹ ہونے کو ہیں ،پتا نہیں کیوں جواب نہیں دے رہا ،میں نے اس کی تلاش میں آدمی بھیج دیا ہے اوور۔“
- ”اکیلا آدمی نہیں بھیجنا ،تمام کو واپس لے کے جاو ہری اپ اینڈ جلدی سے اوکے رپورٹ بھیجو اوور!“کنٹرول سے بولنے والے کا لہجہ کافی سخت اور تنبیہی تھا ۔
- ”راجر !“نمبر فائیو جلدی سے بولا۔مگر کنٹرول کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا تھا ۔
- ان کی گفتگو سن کر میرے قدموں میں خود بہ خود تیزی آ گئی تھی ۔تھوڑی دیر بعد میں بیس کے نیچے سے ہو کر نالا عبور کر رہا تھا ،اس جگہ میں بیس سے بھی نظر نہیں آرہا تھا اور نالے میں موجود دشمن کی نظر سے بھی اوجھل تھا ۔
- نالا عبور کر کے میں جونھی جھاڑیوں میں گھسا ،واکی ٹاکی ایک مرتبہ پھر بول پڑا ۔
- ”نمبر فائیو فا ر فار کنٹرول اوور !“اس کی آواز سخت گھبرائی ہوئی اور متوحش تھی ۔
- ”یس اوور۔“کنٹرول کی بھاری آواز ابھری ۔
- ”سریش قتل ہو گیا ہے اوور۔“نمبر فائیو گھبراہٹ آمیز لہجے میں بولاتھا۔
- ”ہری اپ، پوزیشن لے لو ،وہ یہیں کہیں چھپا ہے ،میں باقی پارٹیاں بھیج رہا ہوں ۔ جوانوں کو کہو ،آڑ میں رہیں اوور ۔“
- ”راجر ۔“نمبر فائیو نے کہا ۔
- ”کنٹرول فا رلالی سیکٹر بیس اوور !“کنٹرول یقینا اسی بیس کو رابطہ کر رہا تھا جہاں سے میں گزر کر آیا تھا۔
- ”بیس فار کنٹرول سینڈ یوور میسج اوور!“
- ”کیا اپنے آدمی تمھاری نظر میں ہیں اوور“
- ”یس ،مجھے نظر آ رہے ہیں اوور۔“
- ”کیا ان کے علاوہ کوئی حرکت نظر آ رہی ہے اوور؟“
- ”نو ،اب تک تو نظر نہیں آئی جیسے ہی نظر آئی میں آپ کو بتا دوں گا ۔اوور“
- ”اوور اینڈ آل۔“
- کہہ کر کنٹرول تمام پارٹیوں کو سفید نالے کی طرف اکٹھا ہونے کی ہدایات جاری کر نے لگا۔
- میں نے ان کی گفتگو کے اختتام پر واکی ٹاکی کو بند کردیا کیونکہ مسلسل چلنے پر بیٹری نے ختم ہو جانا تھا گو ایک اضافی بیٹری میرے پاس موجود تھی مگر پھر بھی عقل مندی کا تقاضا یہی تھا کہ میں واکی ٹاکی کے استعمال میں کفایت شعاری سے کام لیتا ۔ان کی گفتگو نے میرے قدموں میں بجلی بھر دی تھی میں جتنا جلدی وہاں سے غائب ہو جاتا، بہتر تھا ۔اگر ایک بار وہ جنگل کو گھیرے میں لے لیتے تو یقینا میں نے چوہے دان میں پھنس کر رہ جانا تھا ۔ بلکہ میرے ساتھ استاد صادق نے بھی مارا جانا تھا ۔ کلو میٹر بھر سفر طے کرنے کے بعد میں تھوڑا سا رکا ،سمال پیک سے نقشہ نکال کر میں نے اپنی سمت درست کی اور پھر چل پڑا۔
- جلد ہی مجھے امدادی نشان نظر آ گیا۔یہ چیڑ کا ایک بلند درخت تھا جس کے تنے پر میں نے جاتے وقت مخصوص نشان لگایا تھا۔وہ درخت نظر آتے ہی میرے لیے رستے کی شناخت آسان ہو گئی تھی ۔ اس درخت سے دو سو قدم جنوب کی جانب ایک چھتری نما درخت جو ذرا سا مشرق کی جانب جھکا ہوا تھا ، نشانِ راہ تھا ۔چھتری نما درخت کے بعد چیڑ کا ایک ٹوٹا ہوا درخت اسی سیدھ میں موجود تھا ۔آسمانی بجلی گرنے کی وجہ وہ درخت نصف تنے سے کٹ گیا تھا ۔ایک نشان مل جانے کے بعد باقی نشان ملتے چلے گئے ۔ٹوٹے ہوئے تنے والے درخت سے آگے مجھے پندرہ بیس منٹ لگے اور اس کے بعد میں ٹھیک اس مقام تک پہنچ گیا تھا جہاں میں نے استاد صادق کو چھوڑا تھا ۔
- جاری ہے
sniper 1 novel by riaz aqibسنائپر |
Comments
Post a Comment