Bhugtan Riaz Aqib Kohlar Novel part 2
بھگتان
قسط نمبر2
ریاض عاقب کوہلر
پوش علاقے میں موجود وسیع عمارت میں مردو زن کی کثیر تعداد نظر آرہی تھی۔بڑے ہال کے درمیان کرسیوں کے بجائے خوب صورت اور قیمتی صوفہ سیٹ لگے ہوئے تھے۔مختلف میزوں پر تاش،شطرنج وغیرہ کھیلی جا رہی تھیں۔ہال کے ایک کونے میں اسنوکر کی چند میزیں لگی ہوئی تھیں۔ ان کے گرد کچھ جوان” اسٹکیں“ پکڑے رنگین گیندوں کو ٹھوکریں لگا رہے تھے۔قریباََ ہر میز پر آتشیں سیال کو سلیقے سے پیا جا رہا تھا۔وہ اعلا طبقے کا ایک کلب تھا جہاں ممبر شپ حاصل کیے بغیر داخلہ ناممکن تھا۔وہاں نہ تو جوا¿ کھیلنے پر پابندی تھی،نہ شراب پینے کی ممانعت اور نہ شباب کے حصول میں کوئی رکاوٹ تھی۔زیادہ تر کلب ممبران اپنی منظورِ نظر کو ساتھ ہی لے آتے تھے۔اور جو ساتھ نہ لا سکتا اسے رات گزارنے کے لیے انتظامیہ کی طرف سے بھی خو ب صورت لڑکیوں کی پیشکش کی جاتی بدلے میں ان کے بل میں خاطر خواہ اضافہ ہوجاتاتھا۔یہ اور بات کہ وہاں جس طبقے کے افراد آتے تھے ان کے لیے اس کثیر رقم کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔شراب کے علاوہ وہاں منشیات کے استعمال پر بھی پابندی نہیں تھی۔منشیات میں سرفہرست چرس اور افیون تھی۔ منشیات کا استعمال گنے چنے نوجوان ممبر ہی کرتے تھے۔ بیوروکریٹس، بڑے بزنس مین اورجدی پشتی امراء کی بگڑی نسل ذہنی سکون کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے تھے۔
معاویہ اس وقت کونے کی ایک میز پر بیٹھا تاش کھیل رہا تھا۔ اس کے پتے شیشے کی خوب صورت میز پر اوندھے پڑے ہوئے تھے۔البتہ باقی تینوں کھلاڑیوں نے اپنے پتے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے تھے۔معاویہ نے ایک ہاتھ میںسنہری سیال سے بھرا گلاس پکڑاتھاجبکہ دوسرا ہاتھ پہلو میں بیٹھی لڑکی کی کمر سے لپٹا تھا۔گورے رنگ کی لڑکی نے چہرے پر ضرورت سے کچھ زیادہ ہی میک اپ تھوپا ہوا تھا۔ اس کی عمر معاویہ سے چند سال زیادہ نظر آرہی تھی۔جبکہ قیمتی لباس اس کی امارت کی نشان دہی کر رہا تھا۔
معاویہ کے مدمقابل لڑکوں ساتھ بھی خوب صورت حسینائیں موجود تھیں۔ ان لڑکیوں کا مرکز نگاہ بھی معاویہ ہی تھا۔ جنس مخالف کے لیے اس کی شکل میں عجیب قسم کی کشش موجودتھی۔ میز کا درمیانی حصہ مختلف رنگ کے ٹوکنوں سے بھرا ہوا تھا۔معاویہ نے سامنے رکھے ٹوکنوں میں سے آدھے سے زیادہ ٹوکن اٹھا کر درمیان میں پھینک دیے۔اس کے بعد والے لڑکے نے اپنے پتے اکھٹے کر کے ایک جانب رکھے اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر گویا مقابلے سے دستبرداری کا اعلان کر دیاتھا۔باقی دو نے بھی معاویہ کی طرح اپنے سامنے رکھے ٹوکنوں کا مخصوص حصہ میز کے درمیان میں دھکیل دیا تھا۔اگلی باری آنے پر معاویہ نے سامنے رکھے تمام ٹوکن میز کے درمیان میں رکھے اور سگریٹ سلگا کر ساتھ بیٹھی لڑکی سے سرگوشی کرنے لگا۔
” بازغہ بے بی !....پچاس ہزار کے ٹوکن منگوا دو نا ں۔“
”ہنی!....جانتے ہو نا میں پہلے ہی اپنا پرس خالی کر چکی ہوں۔اور اب مزید کھیلنے کا وقت بھی نہیں ہے،میں نے ایک بجے تک واپس لوٹنا ہے اور سوا گیارہ ہو چکے ہیں۔“
معاویہ نے منھ بنایا۔”تو بازی درمیان میں چھوڑ دوں،مشکل سے تو اتنے اچھے پتے ہاتھ میں آئے ہیں۔“
بازغہ اطمینان سے بولی۔”تم شو کروادو۔“
”ہار گیا تو دوالیہ نکل جائے گا۔“معاویہ گھبرا گیا تھا۔
”کچھ نہیں ہوتامیں ادائی کر دوں گی۔“بازغہ نے پر اعتماد لہجے میں اسے تسلی دی۔
معاویہ حیرانی سے بولا۔”پچاس ہزار تو دے نہیں سکتی ہو اور لاکھوں کی ادائی کر دو گی واہ۔“
بازغہ نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔”کیوں کہ ایک تو تمھارے پتے واقعی بہت اچھے ہیں اور دوسرا مجھ سے مزید صبر نہیں ہورہا،جانتے بھی ہو کتنے عرصے سے تم دور ہو۔“
”شو۔“بازغہ کا مطمح نظر جانتے ہی اس نے اپنی باری آنے پر شو کا نعرہ بلند کیا۔اور پھر دونوں مخالفین کے پتے دیکھتے ہی اس کی باچھیں مسرت سے کھل گئی تھیں۔اپنے پتے سیدھے کرتے ہی اس نے میز کے درمیان پڑا ٹوکنوں کا انبار اپنے سامنے سمیٹ لیا تھا۔
بازغہ نے ویٹرس کو اشارہ کر کے وہ ٹوکن اٹھانے کا اشارہ کیا اور معاویہ کا ہاتھ تھام کر کھڑی ہو گئی۔تھوڑی دیر بعد وہ کاﺅنٹر پر جا کر اپنے ٹوکنوں کا حساب کروا رہا تھا۔ٹوکن گنتی کر کے کاﺅنٹر پر موجود آدمی نے ایک رجسٹر میں کچھ اندراج کیا اور رجسٹر دستخط کرنے کے لیے معاویہ کے سامنے رکھ دیا۔دستخط سے پہلے اس نے مخصوص خانے میں لکھا عدد پڑھا جہاں پانچ عددکے ساتھ پانچ صفر لکھے ہوئے تھے۔مطمئن انداز میں سر ہلاکر اس نے دستخط کیے اور بازغہ کے ساتھ سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔
”شکر ہے اس کمینی سے تم نے جان چھڑا لی ہے۔“سیڑھیوں پر قدم دھرتے ہوئے بازغہ دھیمے لہجے میں بولی۔اس وقت وہ معاویہ سے لپٹی جا رہی تھی۔
معاویہ فلسفیانہ لہجے میں بولا۔”ایسی کئی کمینیاں آئیں اور چلی گئیں۔تم تو میری پکی دوست ہو۔“
بازغہ دکھی لہجے میں بولی۔”میں کسی کو تمھاری ہوا بھی نہ لگنے دوں مگر کیا کروں کہ اتنے پیسے میرے پاس نہیں ہوتے کہ تمھیں مستقل اپنے قابو میں رکھ سکوں۔“
”ہو ناں پاگل۔“معاویہ نے اسے پیار سے جھڑکا۔ ”تم اچھی طرح جانتی ہو کہ جیسے ہوا کو پنجرے میں بند نہیں کیا جاسکتا ہے۔یونھی معاویہ پر بھی مستقل اجارہ داری ممکن نہیں ہے۔“
بازغہ عزم سے بولی۔”جس دن اپنے بڈھے خاوند سے جان چھوٹی میں ترکے میں ملنے والی ساری جائیداد اور مال دولت تمھارے قدموں میں رکھ کر تمھاری باندی بننے کی درخواست کروں گی۔“
”بازغہ ایسے خواب دیکھنا چھوڑ دو۔یقینا تم واحد لڑکی ہو جسے معاویہ نے اتنی زیادہ قرب کی راتیں بخشی ہیں ورنہ معاویہ دو تین مہینوں سے زیادہ تعلق نہیں پالتا۔“اس کا لہجہ نخوت سے پر تھا۔اس وقت وہ ایک دروازے کے سامنے پہنچ گئے تھے۔ بازغہ نے پرس سے چابی نکال کرسوراخ میں ڈالی اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔معاویہ کے گھستے ہی اس نے دروازہ تالا کر دیا تھا۔ معاویہ کو کمرے کے وسط میں پڑے بیڈ پر دھکیل کر وہ خود فرج کی طرف بڑھ گئی۔واپسی پر اس کے ہاتھ میں شراب کی بوتل اور دو گلاس تھے۔اس کی آنکھیں شراب پینے سے پہلے خمار آلود ہو گئی تھیں۔بوڑھے سیٹھ کی بے راہرو بیوی کی پر ہوس نظریں نوخیز معاویہ کے پرکشش چہرے پر گڑی تھیں۔حالانکہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ معاویہ کی فطرت رس چوسنے والے اس بھونرے کی سی تھی جو کبھی ایک پھول پر قانع نہیں رہ سکتا تھا۔اور یہ بھی کہ وہ صرف دولت کے حصول کے لیے لڑکیوں سے دوستی کرتا تھا۔اور یہ بھی کہ وہ نہایت خود غرض،مطلب پرست اور موقع شناس تھا۔یہاں تک کہ مطلب براری کے لیے وہ لڑکیوں کو بلیک میل کرنے سے بھی باز نہیں آتا تھا۔یہ بھی کہ اس کے میٹھے لب و لہجے کے پیچھے منافقت چھپی تھی، بھولی بھالی صورت کے عقب میں مکاری کاراج تھااور خوشنما بدن بس صنف نازک کو پھانسنے کا پھندہ تھا۔لیکن یہ ساری معلومات رکھنے کے باوجود وہ اس پر مرتی تھی،اس کی دیوانی تھی اور اس کے لیے ہر حد پھلانگ سکتی تھی۔وہ بھی اس کلب کی مستقل ممبر تھی۔اس کے بوڑھے خاوند کی مصروفیات تو بس بزنس کے بے تحاشا پھیلاﺅ کی کوششوں تک محدود تھیں۔اور وہ اس کی دولت باقاعدگی سے معاویہ پر لٹا رہی تھی۔جب معاویہ کسی نئی امیر زادی کو پھانس لیتا تب بازغہ عارضی طور پر پیچھے ہٹ جاتی کہ وہ معاویہ کی فطرت سے اچھی طرح واقف تھی۔ ایسی حالت میں وہ اسے پہچاننے سے بھی انکار کر دیتا تھا۔البتہ جب اس لڑکی سے مزید مالی فائد ہ حاصل ہونے کی امید ختم ہو جاتی تب وہ لڑکی کو ہری جھنڈی دکھاکر نئے شکار کی تلاش میں آگے بڑھ جاتا۔ اور نئی امیرزادی کی تلاش تک وہ بازغہ پر مہربان رہتا۔بازغہ کو اپنے شوہر سے صرف ایک بجے تک باہر رہنے کی اجازت ملی ہوئی تھی۔اسی لیے وہ معاویہ کو زیادہ دیر تاش کھیلنے نہیں دیتی تھی کہ جوان جسم کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ہی تو اتنی رقم خرچ کرتی تھی۔
﴾۰﴿﴾۰﴿﴾۰﴿
صبح جونھی اس کے باپ نے کار روکی وہ۔”اللہ حافظ باباجانی۔“کہہ کر نیچے اتر گئی تھی۔
یوسف نے مرسڈیز واپس موڑی اور وہ یونیورسٹی کی اندرونی عمارت کی طرف بڑھ گئی۔ اس کی چھٹی حس نے نظروں کی تپش کا احساس دلایا،بے ساختہ اس کا سر دائیں بائیں گھوم گیا تھا۔وہ اسے فوراََ ہی نظر آگیا تھا۔ سرخ رنگ کی نئے ماڈل کی سپورٹس کار کی چھت پر ہاتھ ٹیکے وہ قربان ہونے والی نظروں سے اس کے سراپے کو گھور رہا تھا۔شمامہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔کشادہ جبیں پر بھورے بال بکھرائے، سفید قمیص کی آستینیں کہنیوں تک موڑے، لبوں پر دھیمی مسکراہٹ پھیلائے وہ مردانہ وجاہت کا نمونہ نظر آرہا تھا۔اس نے بڑی مشکل سے چہرہ واپس موڑا تھا۔ورنہ پاگل دل تو سارے راز طشت ازبام کرنے پر تلا تھا۔
کلاس روم میں داخل ہونے تک وہ بے قابو ہوتی دھڑکنوں کو نہیں سنبھال سکی تھی۔ اپنی نشست پر بیٹھتے ہوئے وہ یوں گہرے سانس لینے لگی جیسے دور سے بھاگتی ہوئی آرہی ہو۔اس کی خوش قسمتی تھی کہ کلاس روم اس وقت خالی پڑا تھا ورنہ نقاب میں ہونے کے باوجود اس کی ناگفتہ بہ حالت دوسروں کو معلوم ہو جاتی۔
”پتا نہیں کیا ہوجاتا ہے مجھے۔“افسوس بھرے انداز میں سر ہلاتے ہوئے اس نے اپنے نوٹس کھول لیے۔
”اسلام علیکم !“ معاویہ کلاس روم میں داخل ہوتے ہوئے مسحور کن لہجے میں بولا تھا۔شمامہ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا۔جواب دیے بغیر وہ جلدی جلدی کتاب کے ورق الٹنے لگی۔
”شاید آپ مجھ سے خفا ہیں؟“اپنی نشست پر بیٹھتے ہوئے اس نے چاہت بھرے لہجے میں پوچھا۔
شمامہ اس بار بھی جواب دینے کی ہمت نہیں کر پائی تھی۔ اس کا لہجہ اتنا مسحور کن اور جادو بھرا تھا گویا ہر لفظ شہد میں لتھڑا ہو۔
” شمامہ رانی !....میں آپ کو مخاطب ہوں۔اور یقین مانیں مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے محترمہ کی شان میں کوئی گستاخی کی ہو۔اور بالفرض اس بارے میری یاداشت دھوکا دے رہی ہے تو آپ مجھے غلط ثابت کرنے کا حق بھی رکھتی ہیں۔“
”مم....میں ....نہیں تو،ایسا میں نے کب کہاہے۔“وہ گڑبڑا گئی تھی۔ اسے ذرا بھی شبہ ہوتا کہ وہ اسے کلاس روم میں گھیر لے گا تو وہ کبھی وہاں نہ بیٹھتی۔
”اچھا پتا ہے آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں۔“اس نے اچانک حملہ کیا تھا۔شمامہ کا دل اتنی زور سے دھڑکنے لگا تھا کہ ” دھک دھک “کی آواز اس کی سماعتوں تک پہنچ رہی تھی۔
”آ....آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ؟“وہ بڑی مشکل سے جواب دے پائی تھی۔
اس کا ہکلایا ہوا معصومانہ لہجہ معاویہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لے آیا تھا۔”جو دل میں ہے اس کا اظہار کر رہا ہوں۔“
”براہ مہربانی اپنی حد میں رہیں،مجھے ایسی باتیں پسند نہیں ہیں۔“اس نے بہ ظاہر سخت لہجے میں کہا تھا،مگر دل اس کے الفاظ کو جھٹلانے پر تلا تھا۔
”میں نے آپ کی پسند نہیں پوچھی،اپنی بتلائی ہے۔“معاویہ نے جاندار قہقہ لگایا۔
اس کے مسکراتے ہوئے چہرے کی طرف دیکھ کر وہ دم بہ خود رہ گئی تھی۔”ہنستے ہوئے کوئی اتنابھی اچھا لگ سکتا ہے۔“ دل کی گہرائیوں میں اٹھنے والی آواز کو وہ ہونٹوں تک رسائی نہیں دے سکتی تھی۔اور پھر اس کی غائبانہ مدد آپہنچی۔تین چار طلبہ ایک ساتھ کلاس روم میں داخل ہوئے تھے۔ انھیں دیکھتے ہی شمامہ نے اطمینان بھرا گہرا سانس لیا تھا۔
معاویہ بھی چپ ہو گیا تھا لیکن اس نے شمامہ کو گھورنا بند نہیں کیا تھا۔
﴾۰﴿﴾۰﴿﴾۰﴿
خالی پیریڈ میں وہ بسمہ کے ساتھ گزشتا روز والی جگہ پر جا کر بیٹھ گئی تھی۔
”ناشتا نہیں کر سکی،سخت بھوک محسوس ہو رہی ہے۔“بیٹھتے ساتھ بسمہ نے واویلا کیا۔
”میرے پاس دال کا بنا پراٹھا موجود ہے۔“شمامہ نے قیمتی شولڈر بیگ سے چھوٹا سا ”لنچ بکس“ نکالا۔یہ شولڈر بیگ اسے سیٹھ کی بیٹی راحیلہ نے دیا تھا۔وہ اس سے ایک سال بڑی تھی۔اور اپنی زیادہ تر چیزیں وہ ایک ادھ بار استعمال کر کے شمامہ کو بھجوا دیتی تھی۔باپ اور بھائیوں کی طرح وہ بہت اچھی طبیعت کی مالک تھی۔
”مجھے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ تم اتنی اچھی ہو گی۔“بسمہ نے بے صبری سے اس کے ہاتھ سے لنچ بکس جھپٹا۔”یقینا تمھیں تو بھوک نہیں ہو گی۔“کہہ کر وہ اس کا جواب سنے بغیر پراٹھے کو جڑ گئی۔
شمامہ کو اس کے انداز پر ہنسی آگئی تھی۔
”ہنسو محترمہ ہنسو،تمھیں تو خادمہ سب کچھ تیار کر کے بیڈ پر لا دیتی ہو گی۔ہم غریبوں کے پاس نہ تو کوئی ملازمہ ہے اور نہ خود ہمیں توفیق ہوتی ہے۔“
”تمھاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ میں نے خود بنایاتھا۔“شمامہ صاف گوئی سے بولی۔ ”باقی میرا قیمتی کار میں آنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں سیٹھ زادی ہوں۔باباجان سیٹھ عبدالکریم صالح کے ڈرائیور ہیں اوران کی اجازت سے مجھے یونیورسٹی آنے جانے کے لیے کار کی سہولت ملی ہوئی ہے۔“
”بہ ہرحال بہت لذیز پراٹھا تھا اور اب تم یہیں بیٹھو میں ٹھنڈی بوتلیں لاتی ہوں سخت پیاس محسوس ہو رہی ہے۔“بسمہ کے لیے اس کی غربت یا امارت کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔وہ اسے مطلع کرکے کیفے ٹیریا کی طرف بڑھ گئی۔
کاﺅنٹر پر کھڑے ہو کر بوتلیں لے رہی تھی کہ اچانک اس کے کانوں میں ایک لڑکی کی تیز آواز گونجی۔
”کب تک بھاگو گے محترم!“اس نے مڑ کر دیکھا ایک خوب صورت لڑکی معاویہ کو مخاطب ہوئی تھی۔اور اس کی آواز اتنی بلند تھی کہ کافی طلبہ بے ساختہ ان کی طرف دیکھنے لگے تھے۔ وہ بھی اشتیاق سے ان کی طرف متوجہ ہو گئی۔
”میں کیوں بھاگوں کا شگفتہ۔“معاویہ کا لہجہ نہایت ہی سلجھا ہوا تھا۔
”تم اچھی طرح جانتے ہو میرے کہنے کا مطلب کیا ہے؟“شگفتہ پر اس کی نرم خوئی کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
معاویہ نے نفی میں سرہلایا۔”میں بالکل بھی نہیں جانتا۔“
شگفتہ زہریلے لہجے میں بولی۔”جانو گے بھی کیسے،دولت کے پجاری کے نزدیک کسی کے احساسات کی اہمیت ہی کیا ہوتی ہے۔“
”یقینا آپ میری توہین کر رہی ہیں۔“معاویہ ٹھنڈے لہجے میں بولا تھا۔ بسمہ اس کی برداشت دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔ شگفتہ بار بار اس کی توہین کر رہی تھی اور وہ جوابی کارروائی سے مسلسل احتراز برت رہا تھا۔
شگفتہ تلملاتے ہوئے بولی۔”توہین نہیں کر رہی آئینہ دکھا رہی ہوں۔“
”محترمہ شگفتہ احسان !....اگر آپ آئینہ دکھا چکی ہیں تو براہ مہربانی تشریف لے جائیں۔کسی کے صبر کو زیادہ آزمانا عقل مندی کی علامت نہیں ہے۔“
” جانتی ہوں تم کتنے خوش اخلاق ہو،بہ ہرحال میں اپنی رقم لینے آئی ہوں۔“
گہرا سانس لیتے ہوئے معاویہ نے کندھے اچکائے اور کہا۔”گو مجھے پوچھنے کا حق ہے کہ کون سی رقم۔لیکن معاویہ علی صدیقی پیسے کو ہاتھ کا میل سمجھتا ہے۔بتاﺅ کتنی رقم چاہیے۔“
وہ بپھرتے ہوئے بولی۔”میں کسی کے پیسوں پر لعنت بھیجتی ہوں۔شگفتہ احسان تم جیسے بھیک منگوں کو اپنے پرس میں پھراتی ہے۔ میرے اپنے پیسے واپس کرو۔“
معاویہ طنزیہ لہجے میں بولا۔”وہی تو پوچھ رہا ہوں تین ماہ کے تعلق کا کتنا بل بنا ہے؟“
وہ پھاڑ کھانے والے لہجے میں بولی۔”دس لاکھ روپے۔اور یہ وہ رقم ہے جو تم مجھ سے ادھار لے چکے ہو۔“
معاویہ نے کوٹ کی اندرونی جیب سے چیک بک نکالی اور بے پروائی سے دس لاکھ کا چیک لکھ کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
چیک کے مندرجات پڑھتے ہی شگفتہ کا غصہ دھیما پڑ گیا تھا۔چیک کو شولڈر بیگ میں ڈال کر وہ پیچھے مڑی اور کچھ کہے بغیر لمبے ڈگ بھرتے ہوئے کیفے ٹیریا سے باہر نکل گئی۔
بسمہ اس تماشے کے دوران وہیں کھڑی رہی۔ معاویہ کی خوش اخلاقی اور نرم خوئی نے اسے کافی متاثر کیا تھا۔شگفتہ کے چلے جانے کے بعد اس نے معاویہ کے چہرے پر الوداعی نگاہ ڈالی،بوتلیں پکڑیں اور باہر چل دی۔
شمامہ بے صبری سے اس کی منتظر تھی۔
”اتنی دیر لگا دی؟“اس نے چھوٹتے ہی پوچھا۔
”بس یار، کیا بتاﺅں کیفے ٹیریا میں تو ڈراما شروع ہوگیا تھا۔“نیچے بیٹھتے ہوئے اس نے ایک بوتل شمامہ کی طرف بڑھا دی۔
”کیسا ڈراما؟“شمامہ نے حیرانی سے پوچھا۔
بسمہ خواب ناک لہجے میں بولی۔”سچ کہوں تو معاویہ کا چہرہ جتنا خوب صورت ہے اس سے کئی گنازیادہ اس کا دل اور سوچیں خوب صورت ہیں۔“
شمامہ چڑتے ہوئے بولی۔”کچھ پتا تو چلے۔“نجانے کیوں اسے بسمہ کا معاویہ کی تعریف کرنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
اس کے لہجے پر دھیان دیے بغیر بسمہ اسے کیفے ٹیریا والی کہانی سنانے لگی۔
﴾۰﴿﴾۰﴿﴾۰﴿
”یار، شگفتہ احسان کے سامنے تو تم بالکل بکری بن گئے تھے۔اس کی ساری رقم بھی لوٹا دی۔کیا فائدہ اتنی لمبی دوستی کا۔“شگفتہ کے جاتے ہی عقیل اسے مطعون کرنے لگا۔
”وہ محترمہ نظر آرہی ہے۔“معاویہ نے بسمہ کی جانب اشارہ کیا جو ہاتھ میں بوتلیں پکڑے دروازے کی طرف جا رہی تھی۔
عقیل نے منھ بنایا۔”اچھی طرح،میرا خیال ہے بسمہ نام ہے۔اور اپنی کلاس فیلو بھی ہے۔“
”بس اتنا ہی معلوم ہے۔“معاویہ نے استہزائی لہجے میں کہا۔”بے وقوف وہ شمامہ رانی کی قریبی سہیلی بھی ہے۔اور پہلے دن ہی سے دونوں ایک دوسرے کے قریب آ گئی ہیں۔ اوراس وقت محترمہ کے ہاتھ میں نظر آنے والی دو بوتلوں میں سے ایک لازماََشمامہ رانی کے لیے ہی ہوگی۔“
”تو ....؟“عقیل کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا تھا۔
معاویہ جھلاتے ہوئے بولا۔”تو یہ کہ تم کبھی لڑکی نہیں پھنسا سکتے۔“
”وضاحت نہیں کر سکتے تو دماغ بھی خراب نہ کیا کرو۔“عقیل کو بھی غصہ آگیا تھا۔
”احمق آدمی،جب وہ شمامہ کے پاس جا کر میری خوش اخلاقی،حوصلے اور برداشت کی تعریف کرئے گی، صنف مخالف سے میرے عمدہ برتاﺅ کا ذکر کرے گی تو تمھارا کیا خیال ہے شمامہ رانی اس کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دے گی۔“
”ضروری تو نہیں وہ شمامہ سے ذکر کرے۔“
” تم لڑکیو ں کی نفسیات نہیں جانتے۔بے وقوف شگفتہ کی گفتگو کی ابتداءسے پہلے وہ بوتلیں خرید چکی تھی۔اور شگفتہ کی باتیں شروع ہوتے ہی وہ باہر جانے کے بجائے ہماری تمام گفتگو غور سے سنتی رہی۔اوراب وہ شمامہ رانی کے سامنے سارا واقعہ بیان کر رہی ہو گی۔“
عقیل نے پوچھا۔”اگر اس نے ایسا نہ کیا؟“
معاویہ اطمینان سے بولا۔”تو پیٹ میں درد پڑنے سے مر جائے گی۔“
عقیل ہنسا۔”گویا اس کی وجہ سے تم اتنے اخلاقی بن رہے تھے۔“
”شمامہ رانی کی وجہ سے۔“معاویہ نے تصحیح کی۔
”میں تمھیں لکھ کر دے سکتا ہوں کہ بسمہ،شمامہ سے کئی گنا بڑھ کر خوب صورت ہے۔“
”بسمہ خوب صورت ہے۔“معاویہ نے اسے ملامتی نظروں سے گھورا۔
”محترم کانوں کو کھلا رکھو،میں نے کہا شمامہ رانی سے خوب صورت ہے۔“
”شمامہ رانی تو سونے کی چڑیا ہے جگر،اورمیری نظر ایسی لڑکیوں کی شکل پر نہیں ”بینک بیلنس “پر ہوتی ہے۔“
”پتا نہیں بھدے نقوش والی نقاب پوش سے تمھیں کچھ حاصل ہو گا یا نہیں لیکن تم نے شگفتہ کو دس لاکھ کا چیک کاٹ کر دے دیا۔“
معاویہ منھ بگاڑ کر بولا۔”اگر میں کہوں کہ تم احمق ہو تو اس بات میں کسی احمق ہی کو شک ہو گا۔“
”سچ کہہ رہا ہوں بھائی صاحب،اس کے باپ کی امارت میں مجھے کوئی شک نہیں ہے لیکن کیا اسے بھی اتنا جیب خرچ ملتا ہوگاکہ وہ معاویہ علی کی پانچوں گھی اور سر کڑاہی میں ڈال سکے۔“
”وہ بعد کا معاملہ ہے عقیل صاحب،پہلے یہ سوچو کیا میرے اکاﺅنٹ میں دس لاکھ موجود ہوں گے۔“معاویہ کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
”یعنی وہ جعلی چیک تھا۔“عقیل ششدر رہ گیا تھا۔
”چیک اصل تھا،دستخط بھی میرے تھے لیکن میرے اکاﺅنٹ میں اتنی رقم موجودنہیں ہو گی۔
”گویا شگفتہ احسان سے جھگڑا ابھی باقی ہے۔“
”نہیں۔“معاویہ نے نفی میں سرہلایا۔”اب شگفتہ صاحبہ اُس جگہ کا رخ بھی نہیں کرے گی جہاں میری موجودی کا ذرا بھی احتمال ہوگا۔“
”کیوں؟“
معاویہ ہنسا۔”بھول گئے۔“
”وہی نازیبا تصاویر اور وڈیوز....“عقیل نے سوالیہ انداز میں تصدیق چاہی۔
”جواب درست ہے۔“معاویہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کھڑا ہو گیا تھا۔
﴾۰﴿﴾۰﴿﴾۰﴿
”یہاں کیوں بلایا ہے ؟“شگفتہ شاکی لہجے میں مستفسر ہوئی تھی۔یوں جیسے اسے یقین ہو کہ معاویہ نے تجدید محبت کے لیے اسے یونیورسٹی کے اس ویران کونے میں آنے کی دعوت دی ہو۔ یہاں وہ پہلے بھی کئی بار خوشگوار وقت بتا چکے تھے۔وہ لمحات یاد آتے ہی شگفتہ کے جسم میں سرور کی لہریں اٹھنے لگی تھیں۔
”بیٹھو،کچھ دکھانے کے لیے بلایا ہے۔“معاویہ کا لہجہ جذبات سے عاری تھا۔
”ایسے ہی ٹھیک ہوں۔“شگفتہ اتنی جلد ناراضی ختم کرنے والی نہیں تھی۔ اس کی سماعتیں معاویہ کی لجاجت بھری آواز اور منت بھرے الفاظ سننے کی متمنی تھیں۔گو اس کی وہاں آمد ظاہر کر رہی تھی کہ وہ پرانی باتوں کو بھلانے کی نیت سے آئی ہے اوریقینا اس کے دل میں اب بھی معاویہ کی محبت پنپ رہی تھی۔لیکن پہلے معاویہ کو اس کی غلطیوں کا احساس دلانا اور اپنی اہمیت منوانے کا مرحلہ باقی تھا۔
”چلو کھڑے کھڑے ہی یہ دیکھ لو۔“معاویہ نے مصر ہوئے بغیرہاتھ میں پکڑا قیمتی موبائل فون اس کی جانب بڑھادیا۔
حیرانی بھرے انداز میں موبائل تھام کر اس نے سکرین پر نگاہ دوڑائی جہاں وہ نازیبا حالت میں نظر آرہی تھی۔وڈیو میں معاویہ بھی موجود تھا لیکن اس کی شکل نظر نہیں آرہی تھی۔
”یہ ....یہ ....کیا ہے۔“خوف کی شدت سے اس کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا۔
”اندھی تو نہیں ہو کہ نظر نہ آئے نہ پاگل ہی ہو کہ سمجھ نہ سکو۔“
”مم....میں تم پر کیس کر دوں گی۔پاپاتمھیں عبرت کا نمونہ بنا دیں گے۔“شگفتہ نے پھسپھسے لہجے میں دھمکی دی۔
وہ اطمینان بھرے لہجے میں بولا۔”محترمہ شگفتہ احسان صاحب،ایک دو دن تک میں چند مخصوص ”سائیٹوں“ سے بات کرنے والا ہوں دیکھتا ہوں وہ ان” وڈیو کلپس “کو خریدنے کے لیے کیا پیشکش کرتے ہیں۔ تم سے چونکہ خاص تعلق رہا ہے اس لیے تمھاری پیش کش سننے کے لیے ادھر بلا لیا۔نمونہ دکھانے کے لیے دو تین وڈیوزاور چند تصاویر لایا ہوں باقی میرے لیپ ٹاپ میں محفوظ ہیں۔“
” بلیک میل کر رہے ہو۔“شگفتہ کے خوب صورت نقوش غصے کی شدت سے بگڑ گئے تھے۔
”ہاں ....“معاویہ نے سکون بھرے انداز میں اس کے ہاتھ سے موبائل فون پکڑ لیا۔” ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن تم نے خود دعوت دی ہے۔“
ناگفتہ بہ حالت سنبھالنے کے لیے شگفتہ نے چند گہرے سانس لیے اور پھر آنکھوں میں نمی لاتے ہوئے اس کی جانب متوجہ ہوئی۔”جانتے ہیں میں آپ سے کتنی محبت کرتی ہوں۔کیوں کر رہے ہو ایسا۔میں تو بس آپ کی بے رخی دیکھ کر رویہ دکھا رہی تھی۔“وہ ایک دم تم سے آپ پر آگئی تھی۔
”محترمہ !....یہ ڈراما بازی رہنے دو،مجھے نہ تمھاری محبت کی ضرورت ہے اور نہ قرب کی خواہش،یہ جسم میرے لیے کشش کھو چکا ہے۔کیوں کہ ضرورت سے زیادہ ہی استعمال کیا جا چکا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے کسی لڑکی سے آج تک محبت ہوئی ہی نہیں ہے۔محبت میرے نزدیک وقت کا ضیاع اور بڑی حماقت ہے۔میں تو لڑکیوں سے کاروباری نقطہ نظر سے محبت کا کھیل رچاتا ہوں۔اسی بہانے جسمانی تقاضوں کی بھی تکمیل ہو جاتی ہے۔ اور کچھ خرچا پانی بھی نکل آتا ہے۔ تمھارے اشک اور چکنے چپڑے الفاظ بے فائدہ ہی رہیںگے۔اس لیے براہ راست مدعا پر آتے ہیں۔ مجھے ان وڈیوز کے بدلے پچاس لاکھ روپے چاہئیں۔ ایک ہفتے کی مہلت دیتا ہوں اگر مطلوبہ رقم مجھے نہ ملی تو ان تصاویر کے بڑے بڑے پوسٹر چھپوا کر یونیورسٹی کی ہر دیوار پر چپکا دوں گا۔ اور پوری دنیا میں تمھاری وڈیوز پھیلا دوں گا۔“اس کا غلاظت بھرا لہجہ سن کر شگفتہ کانپ گئی تھی۔
”مم....میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے۔میں یہ چیک آپ کو واپس کر دیتی ہوں اور یقین دلاتی ہوں کہ آئندہ آپ کے سامنے نہیں آﺅں گی۔پلیز ....یہ وڈیوز ضائع کر دو،اگر کسی اور نے دیکھ لیے تو میرے پاس خود کشی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔“ شگفتہ نے دستخط شدہ چیک معاویہ کی جانب پھینکتے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے تھے۔
معاویہ کے ہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اس نے چیک کے ٹکڑے کر کے ہوا میں اڑاتے ہوئے کہا۔”مہلت بڑھا سکتا ہوں شگفتہ !....قسطوں میں اداکردینا۔ معافی نہیں مل سکتی۔“
”پپ....پلیز ....“اس نے روتے ہوئے دوبارہ ہاتھ جوڑ ے۔
وہ بے رحمی سے بولا۔”اگر تمھارا رونا دھونا جاری رہا تو پچا س لاکھ،ایک کروڑ میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔“
”رقم بہت زیادہ ہے۔ میرا جیب خرچ اتنا نہیں ہے کہ دو تین سالوں میں بھی پچاس لاکھ پورے کر پاﺅں۔“اس نے بے بسی کا اظہار کیا۔
”پہلے بھی تو دو تین ماہ کے اندر تم نے دس لاکھ روپے مجھے دیے تھے۔“معاویہ کے لہجے میں مکاری بھری تھی۔
وہ صاف گوئی سے بولی۔”پاپا کی تجوری سے چرائے تھے۔“
”تو بس ایسا ہی کچھ کر لینا،تمھارے پاس کافی قیمتی زیور ہو گا، اپنی کار کی مرمت کے بہانے کچھ رقم اینٹھ لینا،شکل و صورت کے لحاظ سے ہزاروں لاکھوں میں ایک ہو کسی واجبی صورت کے امیر زادے کو پھانس کر کچھ رقم نکلوا لینا، نیا موبائل فون لینے کے بہانے بھی اچھی خاصی رقم اپنے پاپا جان سے لے سکتی ہو وغیرہ وغیرہ ....“معاویہ سکون بھرے انداز میں اسے رقم اکٹھی کرنے کے طریقے بتانے لگا۔
وہ لجاجت سے بولی۔”کک....کچھ تو کمی کردو پچاس لاکھ بہت زیادہ ہیں۔“
اس نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے کہا۔”چلو دس لاکھ کا چیک تم نے واپس کر دیا اور معاویہ کسی کو دی ہوئی چیز واپس نہیں لیا کرتا اس لیے چالیس لاکھ دے دینا۔“
وہ بے بسی سے کراہی۔”ی....یہ بھی زیادہ ہیں۔“
”تمھارے ساتھ میں نے بہت اچھے لمحات بتائے ہیں شگفتہ !....آخری بات کر رہا ہوں،تیس لاکھ ....اب کوئی تکرار کی تو وہی پچاس لاکھ ہوں گے۔“
تھوک نگلتے ہوئے شگفتہ نے سرجھکایا اورکراہتے ہوئے پوچھا۔”اس کا کیا ثبوت کہ رقم حاصل کرنے کے بعد تم یہ وڈیوز ضائع کر دو گے۔“
”تم پہلی لڑکی نہیں ہو،کیا اس سے پہلے سنا کہ کوئی لڑکی میرے حوالے سے بدنام ہوئی ہو۔مطلوبہ رقم کے حصول کے بعد میں نہ صرف لڑکیوں کی وڈیوز ضائع کردیتا ہوں بلکہ ان سے تعلق رکھنے والے ہر واقعے کو بھی اپنی یاداشت سے مٹا دیتا ہوں۔ میرا ایمان ہے کہ بے ایمانی میں،بے اصولی کرنے والا کامیاب نہیں ہو سکتا۔درجن کے قریب لڑکیوں سے میں خراجِ محبت وصول کر چکا ہوں اور وصولی کے بعد انھیں مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ بلکہ تمھارے سامنے بھی ان میں سے کسی کا نام لینامجھے گوارا نہیں ہے۔ “اس مرتبہ معاویہ کے لہجے میں سچ کی امیزیش صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔
بے بسی بھرے انداز میں سر ہلاتے ہوئے وہ واپسی کے ارادے سے مڑی کہ اس ظالم سے رحم کی بھیک مانگنا حماقت تھی۔
”ایک منٹ بے بی،اتنی بھی کیا جلدی ہے۔بیس لاکھ کی رعایت حاصل کر لی ہے۔ انعام کے حق دار تو ہم بنتے ہیں نا۔“مکروہ لہجے میں کہتے ہوئے اس نے شگفتہ کا ہاتھ پکڑکر اپنی جانب کھینچ لیا۔
تہذیب و ثقافت اور شریعت کے اصولوں کی دھجیاں اڑانے والی لڑکی کے نصیب میں ذلت کی گہرائیاں ہی لکھی ہوتی ہیں۔شرم و حیاعورت کا زیور ہے اورعصمت اس کی چادر، جب وہ تنہائی میں غیر مرد کے پاس جاکر بھائیوں کے غرور اور باپ کے مان کی دھجیاں اڑاتی ہے تو اس کے نتیجے میں ملنے والی ذلت کا سامنا بھی سب سے پہلے اسی کی ذات کوکرنا پڑتا ہے۔
شگفتہ کو بھی اپنی بے راہروی کی سزا ملنا شروع ہو چکی تھی۔اوریہ تو اللہ پاک کی مرضی ہوتی ہے کہ کسی گناہ گار کو سزا دینے کے لیے اس پرکسی ظالم کو مسلّط کردے۔یا اس سے بھی بڑے خطا کار کا انتخاب کرے۔کوئی بھی ایسا جس کی مہلت کی رسی اب تک ڈھیلی چھوڑی ہوئی ہو۔
اس وقت معاویہ کا خوب صورت وپرکشش چہرہ شگفتہ کو خون آشام بھیڑیے کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔اس کے ٹھوس اور سڈول بدن سے اسے کراہیت محسوس ہو رہی تھی لیکن اب معاملہ اس کے ہاتھ میں نہیں رہا تھا۔تیس لاکھ کی ادائی تک یہ ذلت اسے وقتاََ فوقتاََ برداشت کرنا تھی۔اس کے بعد بھی وہ جان چھڑا پاتی یا نہیں اس کا انحصار بھی اس جیسے رذیل کے وعدے سے مربوط تھا۔نم آنکھوں اور اذیت بھری سوچوں سے وہ معاویہ کی ہر پیش قدمی بغیر احتجاج کیے برداشت کرتی گئی۔نہ تو یہ کھیل اس کے لیے نیا تھانہ کھلاڑی ناواقف،لیکن اب اس کے احساسات تبدیل ہو چکے تھے۔اوراسے اچھی طرح پتا چل چکا تھا کہ گزشتہ چند ماہ سے جسے وہ محبت کادھندہ سمجھ رہی تھی وہ شکاری کا پھندہ تھا۔
اس وقت یونیورسٹی کا ویران کونہ ایک حوا زادی کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہا تھا۔اور اس قصور میں ظالم و مظلوم دونوں برابر کے شریک تھے۔محبت کے نام پر ہوس کا کھیل رچانے والے کی پیش قدمی کو اس نے کھلے دل سے خوش آمدید کہا تھا۔وہ خوب صورت،معصوم اور بھولے بھالے چہرے پر فریفتہ ہوتے وقت یہ بھول گئی تھی کہ معصومیت کا تعلق صرف شکل و صورت سے نہیں حرکات و سکنات سے بھی ہوتا ہے۔اور اب پچھتاﺅں کا وقت گزر چکا تھا۔اس کا آخری مددگار اللہ پاک کی ذات اور آخری سہارا توبہ کا عمل تھا۔اور اس بے نیاز ذات نے کتنے عرصے کی ذلت اس کے مقدر میں لکھی تھی اس سے صرف وہی بابرکت ذات ہی واقف تھی۔
جاری ہے
Episode 17
ReplyDelete