Bhugtan Riaz Aqib Kohlar Novel
قسط نمبر1
”چل بھئی تمھارا تو نیا اکاﺅنٹ آ گیاہے۔“برقع پوش لڑکی کو نئے ماڈل کی مرسڈیز سے باہر آتے دیکھ کر عقیل نے ساتھ
بیٹھے معاویہ کی پیٹھ پر دھپا مارا۔
بیٹھے معاویہ کی پیٹھ پر دھپا مارا۔
”مجھے بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے۔“معاویہ نے اثبات میں سرہلایا۔”لیکن یہ نہ ہو کسی سے ملنے آئی ہو ؟“
عقیل نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔”اس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتابیں نظر نہیں آ رہیں۔اور پھر کسی کو ملنے آئی ہوتی
تو کار واپس نہ جاتی۔“
تو کار واپس نہ جاتی۔“
”چلو پیچھا کریں کہ کس کلاس میں ہے۔“معاویہ فوراََ ہی کھڑا ہو گیا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ بعد میں وہ پوری یونیورسٹی ہی
چھانتے رہیں۔ان کی مطلوبہ لڑکی نے بینچ پر بیٹھی دو تین لڑکیوں کو مخاطب کر کے کچھ پوچھا۔اور ان کا جواب سن
کرسرہلاتے ہوئے قدم بڑھا دیے۔وہ اس کے پیچھے چلتے رہے۔وہ کشادہ گیلری میں کلاس نام کی تختیوں کو پڑھتے ہوئے
آگے بڑھ رہی تھی۔ مطلوبہ کلاس کے سامنے وہ لمحہ بھر ٹھٹک کر رکی اور پھر دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی۔ معاویہ
اور عقیل نے بے اختیار ایک دوسرے کے ہاتھ بجا کر خوشی کا اظہار کیا تھا۔ کیوںکہ وہ اتفاق سے انھی کی کلاس فیلو نکلی
تھی۔
چھانتے رہیں۔ان کی مطلوبہ لڑکی نے بینچ پر بیٹھی دو تین لڑکیوں کو مخاطب کر کے کچھ پوچھا۔اور ان کا جواب سن
کرسرہلاتے ہوئے قدم بڑھا دیے۔وہ اس کے پیچھے چلتے رہے۔وہ کشادہ گیلری میں کلاس نام کی تختیوں کو پڑھتے ہوئے
آگے بڑھ رہی تھی۔ مطلوبہ کلاس کے سامنے وہ لمحہ بھر ٹھٹک کر رکی اور پھر دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی۔ معاویہ
اور عقیل نے بے اختیار ایک دوسرے کے ہاتھ بجا کر خوشی کا اظہار کیا تھا۔ کیوںکہ وہ اتفاق سے انھی کی کلاس فیلو نکلی
تھی۔
کلاس روم میں داخل ہوتے ہی انھیں نئی لڑکی پہلے سے موجود تین لڑکیوں کے قریب بیٹھی دکھائی دی۔وہ شاید اپنا تعارف
کروا رہی تھی۔ان کے علاوہ چار لڑکے بھی سر جھکائے اپنی کتابوں میں کھوئے ہوئے تھے۔انھوں نے نئی لڑکی کی آمد کو
اہمیت نہیں دی تھی۔یونیورسٹی میں سارے لڑکے معاویہ اور عقیل کی طرح وقت ضائع کرنے نہیں آتے کچھ کو پڑھنے کا
بھی
شوق ہوتا ہے۔
کروا رہی تھی۔ان کے علاوہ چار لڑکے بھی سر جھکائے اپنی کتابوں میں کھوئے ہوئے تھے۔انھوں نے نئی لڑکی کی آمد کو
اہمیت نہیں دی تھی۔یونیورسٹی میں سارے لڑکے معاویہ اور عقیل کی طرح وقت ضائع کرنے نہیں آتے کچھ کو پڑھنے کا
بھی
شوق ہوتا ہے۔
معاویہ اور عقیل دو تین کرسیاں چھوڑ کر بیٹھ گئے۔بیٹھتے ساتھ معاویہ نئی لڑکی کو مخاطب ہوا۔
”مس میں غلطی پر نہیں تو آج آپ کا پہلا دن ہے۔“
اس نے گھبرا کر معاویہ کی جانب دیکھا اور سر جھکاتے ہوئے دھیمے لہجے میں بولی۔ ”جی بھائی۔“یہ کہہ کر وہ بیگ سے
کتاب نکال کرورق گردانی کرنے لگی۔اس کی بے اعتنائی دیکھتے ہوئے معاویہ نے عقیل کو اشارہ کیا اور وہ دونوں کلاس
روم سے باہر نکل آئے۔یوں بھی پیریڈ شروع ہونے میں آدھا گھنٹا پڑا تھا۔
کتاب نکال کرورق گردانی کرنے لگی۔اس کی بے اعتنائی دیکھتے ہوئے معاویہ نے عقیل کو اشارہ کیا اور وہ دونوں کلاس
روم سے باہر نکل آئے۔یوں بھی پیریڈ شروع ہونے میں آدھا گھنٹا پڑا تھا۔
”آواز تو کافی سریلی ہے۔البتہ شکل و صورت کا کچھ پتا نہیں۔“باہر نکلتے ہی عقیل نے تبصرہ شروع کیا۔
معاویہ ہنسا۔”شکل کا اندازہ لگانے کے لیے کیا اس کا نقاب اور آنکھوں پر چڑھی کالے شیشوں والی عینک کافی نہیں ہے۔“
عقیل بولا۔”ہاتھ تو نہایت ہی گورے ہیں۔“
معاویہ ناک بھوں چڑھاتا ہوا بولا۔”بھاڑ میں جائیں گورے، کالے ہاتھ یار،میں نے کون سا شادی کرنی ہے۔بس تین چار ماہ
عیاشی کرکے کوئی دوسری ڈھونڈ لیں گے۔ ممکن ہے گھر سے بہت زیادہ اچھی ہو اور کافی عرصے تک لمبی لمبی رقموں
کا
چارہ ڈال سکے،شگفتہ نے تو اب پرانے حساب کتاب کھولنے شروع کر دیے ہیں۔“
عیاشی کرکے کوئی دوسری ڈھونڈ لیں گے۔ ممکن ہے گھر سے بہت زیادہ اچھی ہو اور کافی عرصے تک لمبی لمبی رقموں
کا
چارہ ڈال سکے،شگفتہ نے تو اب پرانے حساب کتاب کھولنے شروع کر دیے ہیں۔“
عقیل رونی صورت بنا کر بولا۔”یار، مجھے بھی کوئی طریقہ سکھا دو ان تتلیوں کو پھنسانے کا۔خود کی تو پانچوں گھی اور
سر کڑاہی میں رہتا ہے،کبھی اپنے دوست کے حال پر بھی رحم کھا لیا کرو۔“
سر کڑاہی میں رہتا ہے،کبھی اپنے دوست کے حال پر بھی رحم کھا لیا کرو۔“
معاویہ نے قہقہ لگایا۔”وہ کیا کہتے ہیں ....
ع اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے۔“
عقیل ترکی بہ ترکی بولا۔”میں مردہ ہی بھلا۔“
”دوست طریقوں سے زیادہ شکل و صورت اہمیت رکھتی ہے۔تم کسی سادہ اور درمیانی طبقے کی لڑکی کو تو پٹا لو گے لیکن
اعلا خاندان کی لڑکیوں کے لیے تمھاری شکل و صورت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ دولت مند لڑکیاں وقتی تعلقات رکھنے کی
عادی ہوتی ہیں۔ اور شادی وہ کسی اونچے گھرانے میں کرنا چاہتی ہیں۔ جبکہ سفید پوش لڑکیاں کسی چاہنے والے کی متلاشی
رہتی ہیں۔ “
اعلا خاندان کی لڑکیوں کے لیے تمھاری شکل و صورت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ دولت مند لڑکیاں وقتی تعلقات رکھنے کی
عادی ہوتی ہیں۔ اور شادی وہ کسی اونچے گھرانے میں کرنا چاہتی ہیں۔ جبکہ سفید پوش لڑکیاں کسی چاہنے والے کی متلاشی
رہتی ہیں۔ “
عقیل نے منھ بنایا۔”تم کون سا سفید پوش طبقے سے تعلق رکھتے ہو،سیٹھ محمد علی صدیقی کے بیٹے کو ایسا کہنا نہیں جچتا۔“
”جانتے ہو خوب صورت لڑکیوں کی اکثریت ایسی ہوتی ہے جو لڑکوں کو بے وقوف بنا کر انھیں لوٹتی ہیں اور جب وہ بے
چارے سنجیدہ ہوجاتے ہیں تو انھیں نظر انداز کرکے اپنی راہ ہو لیتی ہیں جیسے انھیں جانتی بھی نہ ہوں۔اور یقین مانو میں
صنف نازک سے بدلہ لینے کے لیے ہی لڑکیوں کو پھانستا ہوں۔ اس دوران کچھ مالی فوائد حاصل ہو جائیں تو مضائقہ نہیں۔“
چارے سنجیدہ ہوجاتے ہیں تو انھیں نظر انداز کرکے اپنی راہ ہو لیتی ہیں جیسے انھیں جانتی بھی نہ ہوں۔اور یقین مانو میں
صنف نازک سے بدلہ لینے کے لیے ہی لڑکیوں کو پھانستا ہوں۔ اس دوران کچھ مالی فوائد حاصل ہو جائیں تو مضائقہ نہیں۔“
عقیل صاف گوئی سے بولا۔”جھوٹ نہ بولو یار!....صف نازک سے بدلہ لینے کے لیے صرف امیر لڑکیاں ہی کیوں؟میں نے
آج
تک تمھیں درمیانی طبقے کی کسی لڑکی سے محبت کا ڈراما کرتے نہیں دیکھا۔“
آج
تک تمھیں درمیانی طبقے کی کسی لڑکی سے محبت کا ڈراما کرتے نہیں دیکھا۔“
”میرے سارے دوست یہی کہتے ہیں۔“معاویہ نے اثبات میں گردن ہلائی۔”اگر غریب لڑکیوں ہی کو پھانستا رہوں گا تو عیاشی
کیسے کروں گا۔ جیب خرچ کے پیسے میری شاہ خرچیوں کے لیے کافی نہیں ہوتے۔ تم جانتے ہو میں جس کلب کا ممبر ہوں
وہاں رات کو لاکھوں کروڑوں کا جوا¿ ہوتا ہے۔ شراب پانی کی طرح بہائی جاتی ہے۔میرے جیب خرچ کی خطیر رقم بھی
مہینے کے پہلے دس دنوں تک ساتھ دیتی ہے۔ لے دے کے یہی سیٹھ زادیاں رہ جاتی ہیں جو محبت کے دھوکے میں لمبی لمبی رقمیں کبھی بہ طور قرض اور کبھی بہ طور تحفہ دیتی رہتی ہیں۔“
کیسے کروں گا۔ جیب خرچ کے پیسے میری شاہ خرچیوں کے لیے کافی نہیں ہوتے۔ تم جانتے ہو میں جس کلب کا ممبر ہوں
وہاں رات کو لاکھوں کروڑوں کا جوا¿ ہوتا ہے۔ شراب پانی کی طرح بہائی جاتی ہے۔میرے جیب خرچ کی خطیر رقم بھی
مہینے کے پہلے دس دنوں تک ساتھ دیتی ہے۔ لے دے کے یہی سیٹھ زادیاں رہ جاتی ہیں جو محبت کے دھوکے میں لمبی لمبی رقمیں کبھی بہ طور قرض اور کبھی بہ طور تحفہ دیتی رہتی ہیں۔“
شگفتہ کے بارے کیا بتا رہے تھے؟“عقیل نے اس کی آخری محبوبہ کا نام لیا۔
معاویہ منھ بناتا ہوا بولا۔”کل رات چند ہزار کے تقاضے پر کمینی کہنے لگی کہ میں نے اب تک پہلی والی رقم واپس نہیں کی۔“
عقیل ہنسا۔”گویا تعلقات کی کشتی ڈگمگارہی ہے۔“
معاویہ نے جوابی قہقہ لگایا۔”ڈگمگا نہیں رہی کشتی کے پیندے میں سوراخ ہو گیا ہے۔“
”سگریٹ پلاﺅ یار۔“گہرا سانس لیتے ہوئے عقیل نے سنگی بینچ سے ٹیک لگا لی تھی۔
معاویہ نے گولڈ لیف کی ڈبی نکال کر ایک سگریٹ عقیل کی طرف بڑھائی اور دوسری اپنے ہونٹوں میں دبا لی۔سگریٹ سلگا کر اس نے لائیٹر عقیل کی جانب بڑھا دیا تھا۔
”ویسے شگفتہ کافی تیز لڑکی ہے،اتنی جلدی تمھاری جان نہیں چھوڑے گی۔ تم اس سے کافی رقمیں بھی اینٹھ چکے ہو۔ضرور وہ پہلی فرصت میں بہ طور قرض دی ہوئی رقوم کا مطالبہ کرے گی۔“عقیل نے اندیشہ ظاہر کیا۔
”تم سے متفق ہوکر بھی میرے اثبات میں سر ہلانے میں یہ تصاویر اور وڈیو ز رکاوٹ ڈال رہی ہیں۔“معاویہ نے قیمتی موبائل میں خفیہ فولڈر کھول کر ایک تصویر سکرین پر لائی اور موبائل سکرین کو عقیل کے سامنے پکڑلیا۔ تصویر شگفتہ کی تھی۔ ناکافی لباس کے علاوہ اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے گلاس کا مشروب بھی اس کی اخلاقی پستی کو اجاگر کر رہا تھا۔”شاید تم یقین نہ کرو کہ شگفتہ کی جو تصاویر اور وڈیوز میرے پاس موجودہیں یہ ان سب میں شریفانہ تصویر ہے۔“
”بہت خبیث ہو یار۔“گہرا کش لے کر دھواں ناک سے نکالتے ہوئے عقیل نے تحسین آمیز لہجے میں کہا تھا۔
معاویہ فخریہ لہجے میں بولا۔”یہ حفاظتی تدابیر ہیں دوست۔یقینا ان تصاویر اور وڈیوز کے حصول کے لیے بھی وہ چند لاکھ آسانی سے قربان کر دے گی۔“
”شگفتہ سے پہلے والیوں کو بھی اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہو گا؟“عقیل اس کا دوست ہونے کے باوجود اس کی زندگی کے اس پہلو سے واقف نہیں تھا کہ وہ لڑکیوں کو بلیک میل بھی کرتا ہوگا۔آج پہلی مرتبہ اس نے یہ راز اگلا تھا۔
”شمائلہ اور ثمینہ اس حد تک جانے پر راضی نہیں ہوئی تھیں۔ البتہ ترک تعلقات کے بعد انھوں نے رقم کی واپسی کا مطالبہ وغیرہ بھی نہیں کیا تھا کہ مجھے کوئی مشکل پیش آتی۔“
عقیل نے پوچھا۔”باقی دوست تمھارے اس کرتوت سے واقف ہیں؟“
معاویہ نے منھ بنایا۔”دوستوں کو ایسے رازوں میں حصہ دار بنانا باعثِ نقصان ہو سکتا ہے۔ البتہ تمھاری بات دوسری ہے۔“
اس دوران کلاس کا وقت ہو گیا تھا۔وہ دونوں کلاس روم کی طرف بڑھ گئے تھے۔
﴾۰﴿﴾۰﴿﴾۰﴿
”میرا نام بسمہ لطیف ہے۔“خوب صورت مسکراہٹ والی قبول صورت لڑکی نووارد برقع پوش کو مخاطب تھی۔وہ اسی وقت کلاس روم میں داخل ہوئی تھی۔اور اپنی نشست کے پاس بیٹھی نئی لڑکی کو دیکھتے ہی خوش دلی سے تعارف کرانے لگی۔
”میں شمامہ یوسف ہوں۔“برقع پوش جوابی تعارف کے ساتھ کلاس روم میں داخل ہونے والے پروفیسر کی طرف متوجہ ہو گئی تھی جو۔”اسلام علیکم !“ کہہ کر کلاس کے سامنے آگئے تھے۔
سلام کے جواب کے ساتھ ہی کلاس میں ہونے والی بھنبھناہٹ رک گئی تھی۔تمام پروفیسر صاحب کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔
”نئی کلاس شروع ہوئے تیسرا دن ہے اورعجیب اتفاق ہے کہ آج تین نئے چہرے نظر آرہے ہیں۔“پروفیسرصاحب کی تیز نظروں سے نئے آنے والے بچ نہیں سکے تھے۔”بہ ہر حال نئے طلبہ اپنا تعارف کر ادیں تاکہ سبق کا آغاز کیا جا سکے۔“
”سلیم اللہ ....رضوان علی ....شمامہ رانی....“ نئے آنے والوں نے کھڑے ہو کر باری باری اپنا تعارف کرایا اوربیٹھ گئے۔
”میں پروفیسرا حمد ہوں۔“اپنے تعارف کے ساتھ ہی ادھیڑ عمر پروفیسر سبق کی جانب متوجہ ہوگئے تھے۔
دوران سبق معاویہ مسلسل ہی شمامہ کو گھورتا رہا۔ اسے جلد ہی معاویہ کی حرکت محسوس ہو گئی تھی۔وہ بے چینی سے پہلو بدلنے لگی۔ اس کی گھبراہٹ سے بے پروا،معاویہ چاہت بھرے انداز میں اسے گھورتا رہا۔
”یار،پہلا دن ہے غریب کو سنبھلنے کا تھوڑا سا موقع تو دے دو۔“پیریڈ کے اختتام پر جونھی پروفیسر احمد کلاس روم سے باہرنکلے،ساتھ بیٹھے عقیل نے اس کے پیٹ میں انگلی چبھوتے ہوئے سرگوشی کی۔
دھیرے سے ہنستے ہوئے معاویہ نے جوابی سرگوشی کی۔”غریب ہوتی تو میں نے اسے خاک گھاس ڈالنی تھی۔“
عقیل نے کہا۔”خاصی گھبرائی ہوئی لگ رہی ہے،تمھارا گھورنا اسے بے چین کر رہا ہے۔“
معاویہ اعتماد سے بولا۔”چند دنوں کی بات ہے،پھر دیکھنا میرے نہ گھورنے کی شکایتیں کیا کرے گی۔“
”جانتا ہوں۔“عقیل نے بے بسی کے انداز میں گہراسانس لیا۔ معاویہ بے ساختہ مسکرا پڑا تھا۔
شمامہ نے پین سے رجسٹر پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچتے ہوئے کن اکھیوں سے معاویہ کو دیکھا۔اسے عقیل سے باتیں کرتے دیکھ کر اس نے اطمینان بھرا سانس لیا تھا۔ایسا اس کے ساتھ پہلی بار ہورہا تھا کہ کوئی لڑکا اس وارفتگی سے اسے گھور رہا تھا۔اسکول کے زمانے ہی سے اس نے برقع اوڑھنا شروع کر دیا تھااور اس کا تجربہ تھا کہ لڑکے برقع پوش لڑکی کو چھیڑنے میں احتیاط ہی برتتے ہیںکیوں کہ لڑکوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ نقاب کے عقب میں موجود چہرہ کیسا ہے۔اور یہ لا علمی لڑکی کے تحفظ کو یقینی بنا دیتی ہے۔نہ جانے وہ کیوں اسے اتنی بے ساختگی سے گھورے جا رہا تھا۔ شمامہ اسی کے بارے سوچتی رہی۔
اچانک بسمہ نے اس کی کہنی پکڑ کر ہلائی۔وہ ہڑ بڑا کر چونک گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اس کی سماعتوں میں کلاس کے سامنے کھڑے پروفیسر کی آوازگونجی۔”آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟“
”جج....جی سر ....میں ٹھیک ہو سر۔“وہ گڑبڑا گئی تھی۔
پروفیسرصاحب سر ہلاتے ہوئے سبق کی طرف متوجہ ہو گئے۔وہ سنبھل کران کے الفاظ پر دھیان دینے لگی۔لیکن اس کے ساتھ ہی اسے محسوس ہوا کہ وہ خوبرو لڑکا اسے دوبارہ گھورنے لگا تھا۔ اس نے کھڑکی کی طرف دیکھنے کے بہانے اس کی جانب سر گھمایااور لڑکے کی گہری نیلی آنکھوں میں چاہت کا سمندر موج زن دیکھتے ہی اس کا دل بری طرح سے دھڑکنے لگا تھا۔وہ جلدی سے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔پروفیسر کے الفاظ دوبارہ اس کی سماعتوں سے دور ہونے لگے تھے۔
لڑکا نہایت ہی خوب صوت تھا۔کشادہ جبیں،جھیل کی سی گہری نیلی آنکھیں، بھورے بال،ستواں ناک، قدرتی سرخی لیے ہوئے باریک ہونٹ،مضبوط ہاتھ پاﺅں،سڈول جسم یوں جیسے ماضی کا سفر طے کرکے کوئی یونانی دیوتا ان کی کلاس میں آکر بیٹھ گیا ہو۔اس کی پیشانی پر بکھرے بھورے بال ،آستین کے کھلے بٹن اور دو تین دنوں کی بڑھی ہوئی داڑھی اس کے کھلنڈرے پن اور لاابالی شخصیت کو ظاہر کر رہے تھے۔شمامہ کو آج تک اتنی شدت سے کوئی اچھا نہیں لگا تھا۔گو اس سے پہلے کبھی کسی لڑکے نے اس کی شخصیت میں یوں دلچسپی بھی نہیں لی تھی۔اور لیتا بھی کیسے کہ گھر سے باہر نکلتے ہی وہ سرتاپا برقعے میں ملبوس رہتی تھی۔
ایک دم اس کی ساری سوچیں لڑکے کی ذات تک محدود رہ گئی تھیں۔ صبح بھی اس نے شمامہ سے بات کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کے مخاطب کرنے پر وہ گھبرا گئی تھی۔ لیکن یہ تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ یوں ببانگ دہل اس میں دلچسپی لینا شروع کر دے گا۔آخر اسے شمامہ کی کون سی چیز اچھی لگی تھی جو وہ یوں قربان ہونے والی نظروں سے گھور رہا تھا۔
پیڑیڈ کے اختتام تک وہ پروفیسرصاحب کی جانب متوجہ رہی لیکن اس کی سوچوں میں یونانی دیوتا کی ذات سرگرداں رہی۔پروفیسر صاحب کے کلاس روم سے نکلتے ہی کچھ لڑکے اور لڑکیاں اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے تھے۔
”خالی پیریڈ ہے باہر جا کر بیٹھتے ہیں۔“
بسمہ کے مخاطب کرنے پر وہ چونک کر کھڑی ہوئی اور گود میں رکھے نوٹس کا خیال نہ رکھ سکی جو اس کے کھڑا ہونے پر نیچے گر گئے تھے۔اس سے پہلے کہ وہ جھک کر نوٹس اٹھاتی اسی خوبرو لڑکے نے لپک کر نوٹس اٹھائے اور اس کی جانب بڑھاتا ہوا بولا۔
”یہ لیں مس شمامہ رانی۔“
”شش....شکریہ۔“وہ ہکلا گئی تھی۔
اس کے لبوں پر شوخ مسکراہٹ ابھری۔”معاویہ نام ہے،ویسے آپ کسی مختصر نام سے پکارنا چاہیں تو بھی مجھے اعتراض نہیں ہو گا۔“دکھنے میں وہ بھولا بھالا لگتا تھا لیکن اس کی گفتگو شکل کی تائید نہیں کرتی تھی۔
”معاویہ بھی مختصر نام ہی ہے بھائی۔“ساتھ کھڑی بسمہ نے لقمہ دیا۔
”جانتا ہوں۔،مگر یہ معلوم نہیں کہ کسی کے ہونٹ اس نام کو ادا کرنے میں کتنا عرصہ لیں گے۔“معاویہ کی نگاہوں کا حصار اب بھی شمامہ کا نقاب میں چھپا ہوا چہرہ تھا۔
”چچ....چلیں۔“شمامہ نے گھبراتے ہوئے بسمہ کا سہارا لینا چاہا۔
”میری خوش قسمتی کہ مجھے آپ کی ہمراہی میں چند قدم لینے کا موقع ملے گا۔“معاویہ، شمامہ کے مطمح نظر سے جانتے بوجھتے انجان بن گیا تھا۔
”معاویہ بھائی !....زبردستی ہم پر مسلط نہ ہوں،شمامہ کا مخاطب آپ نہیں ہیں۔“ ہلکے تبسم سے کہتے ہوئے بسمہ،شمامہ کا بازو پکڑ کر چل پڑی۔
”صحیح کہا ....اتنا خوش قسمت میں کہاں ہو سکتا ہوں۔“معاویہ کے لہجے میں شامل دکھ اس کے لیے حیران کن تھا۔
کلاس روم سے باہر نکلتے ہی شمامہ نے سینے میں مقید گہرا سانس خارج کیا۔
بسمہ نے بے تکلفی سے پوچھا۔ ”شاید تم گھبرا گئی تھیں۔“
”ہاں۔“شمامہ نے صاف گوئی سے اثبات میں سرہلایا۔”ایسا میرے ساتھ پہلی بار ہوا ہے۔“
بسمہ نے قہقہ لگایا۔”کیوں کہ لڑکیوں کے کالج میں ایسے نمونے نظر نہیں آتے۔“
”تم تو اسے بے تکلفی کے ساتھ مخاطب کر رہی تھیں۔“بسمہ کی بے تکلفی کے جواب میں شمامہ نے بھی اسے قریبی سہیلی کی طرح ہی مخاطب کیا تھا۔
بسمہ بے نیازی سے بولی۔”مخلوط تعلیم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ لڑکوں کے ساتھ بات چیت کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔“
”سچ میں مجھے تومعاویہ کی باتوں کا جواب دینا اتنا مشکل لگ رہا تھا کہ بتا نہیں سکتی۔“
”یہاں بیٹھتے ہیں۔“بسمہ کیاری پھلانگ کر ملائم گھاس پر بیٹھ گئی۔اپنا پرس سنگی بیچ پر رکھ کر اس نے گھاس پر کہنی ٹیک لی تھی۔اس کی تقلید کرتے ہوئے شمامہ نے بھی سنگی بیچ کے بجائے گھاس پر بیٹھنا پسند کیا تھا۔البتہ اس نے سیمنٹ کی روش کی طرف پیٹھ موڑ کر سنگی بینچ سے ٹیک لگا لی تھی۔
”تمھیں نقاب اوڑھنا مشکل نہیں لگتا؟“بیٹھتے ساتھ بسمہ نے ذاتی سوال کر دیاتھا۔
شمامہ کو اس کا سوال کافی عجیب لگا تھا۔ اس کی خاموشی کو بسمہ نے ناگواری جانا۔ وہ جلدی سے بولی۔”اگر برا لگا ہو تو معذرت خواہ ہوں۔“
”برا کیوں لگے گا۔میں تو بس حیران ہوئی ہوں۔کیوں کہ یہ سوال تو میرا بنتا ہے کہ تم نقاب کے بغیر اتنی آسانی سے کیسے گھوم رہی ہو۔“
بسمہ مسکرائی۔”اطراف میں نگاہ دوڑانے پر تمھیں شاید ہی کوئی برقع پوش دکھائی دے۔“
”دوسروں کی بے پردگی ہمارے لیے مشعل راہ نہیں ہونی چاہیے۔“
”پردہ تو آنکھ کا ہوتا ہے۔“بسمہ نے منھ بنایا۔
شمامہ کو اس کی بات پسند نہیں آئی تھی۔وہ تپتے ہوئے بولی۔”تو پھر کپڑے پہننے کا تکلف کیوں کیا ہوا ہے۔“
”یقیناتمھارے جسم میں پہلی صدی ہجری کی کوئی روح مقید ہے۔“بسمہ نے اس کی کڑوی بات مذاق میں اڑا دی تھی۔
”بسمہ بہن !....ہمارا رہن سہن اور معاشرت ہماری تربیت کے تابع ہوتی ہے، میں بہت چھوٹی تھی شاید تیسری،چوتھی کلاس میں پڑھتی تھی جب امی جان مرحومہ نے ایک دن مجھے پاس بٹھا کر کہا تھا ....
”بیٹی ! .... یاد رکھنا شرم و حیا عورت کا زیور ہوتا ہے اور اچھی سیرت کی بدولت وہ اپنی دنیا و آخرت کو جنت بنا سکتی ہے۔شکل و صورت کا معاملہ توچار دن کی چاندنی کا سا ہے۔ اورجیسے خوب صورتی عارضی ہوتی ہے ویسے ہی حسن پرستوں کی چاہت عارضی ہوتی ہے۔ کبھی اس پر توجہ نہ دینا کہ تم خوب و صورت نظر آرہی ہو یا بد صورت بلکہ تمھیں صرف اور صرف اپنے اخلاق و کردار پر توجہ دینا چاہیے۔عورت کا معنی ہی چھپنے کی چیز ہے۔ شریعت عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق کچھ احتیاطوں کو مدنظر رکھ کر عطا کرتی ہے۔تعلیم کا حصول ہو،بازار میںخریداری کرنا ہو یا نوکری کرنا ہو ان میں سے کوئی کام کرنابھی عورت کو منع نہیں ہے۔بس شرط ایک ہی ہے کہ گھر سے باہر نکلتے وقت عورت فتنے کی صورت اختیار نہ کرے۔ ہمارے مقدس نبی ﷺ کے پاک ارشاد کا مفہوم ہے کہ۔ ”خوب صورت و بد اخلاق عورت تو گھورے کی گھاس ہے۔“جانتی ہو گھورے کی گھاس کیا ہوتی ہے ؟.... انھوں نے مجھ سے سوال پوچھا اور میرا سر نفی میں ہل گیا تھا۔کہنے لگیں.... ”خانہ بدوش لوگ جب کسی جگہ سے چلے جاتے ہیں اور اپنے پیچھے جو کوڑا کرکٹ اور گند بلا چھوڑ جاتے ہیں اس کچرے پر اگنے والی خوش نما گھاس کو گھورے کی گھاس کہتے ہیں کہ دور سے تو بہت بھلی نظر آتی ہے لیکن قریب آنے پر پتا چلتا ہے کہ اس کی اصل توسڑاہوا کچرا ہے۔“ماں کی بہت سے باتیں بہت بعد میری سمجھ میں آئی تھیں،لیکن اس وقت میں اثبات میں سر ہلاکرخود کو سمجھ دارظاہر کرتی رہی۔یقینا امی جان سچی تھیں۔“
”اتنا لمبا لیکچر تو پروفیسر احمد بھی نہیں دیتے یار۔“بسمہ نے اس کی باتوں کو قہقہے میں اڑانا چاہا۔
شمامہ دھیمے لہجے میں بولی۔”میں بس اپنی فطرت تمھارے سامنے کھولنا چاہتی تھی۔“
”ویسے میرا ذاتی تجربہ تو یہ ہے کہ جس عورت کے چہرے پر کوئی عیب ہو یا وہ بالکل ہی واجبی شکل کی ہو وہ برقعے میں ملبوس رہنا پسند کرتی ہے۔ اس طرح کم از کم اس کی عزت نفس تو قائم رہتی ہے کہ کوئی لڑکا اسے منھ کیوں نہیں لگاتا۔“
”شاید ....“شمامہ نے کندھے اچکانے پر اکتفا کیا تھا۔
”کیامجھے بھی اپنے موہنے چہرے کا دیدار نہیں کراﺅ گی۔“بسمہ کا لہجہ کسی کہنہ سال عاشق کا سا ہو گیا تھا۔اس کے انداز پر شمامہ قہقہ لگا کر ہنس پڑی تھی۔
”اگر وعدہ کرو کہ کسی دوسرے سے میری شکل و صورت کے بارے کوئی گفتگو نہیں کرو گی تو سوچا جا سکتا ہے۔“
”چلو وعدہ رہا۔“ایک لمحہ سوچنے کے بعد بسمہ نے اس کی ران پر زور سے ہاتھ مارا۔ وہ ایسی ہی فطرت کی مالک تھی۔ مہینوں اور سالوں کے فاصلے اس نے لمحوں و گھڑیوں میں طے کر لیے تھے۔
”افف....“شمامہ بے ساختہ تھپڑ لگنے والی جگہ سہلانے لگی۔
”چلو نہ جلدی کرو۔“بسمہ نے دوسرا تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا۔مگر شمامہ نے اس کی کلائی تھام لی تھی۔
”بسمہ !نہ کرو،درد ہوتا ہے۔“وہ معصومیت سے بولی۔
بسمہ شرارتی لہجے میں بولی۔”قسم سے اگر یہ معصومیت بھرا لہجہ معاویہ بھائی نے سن لیا تو دل پر ہاتھ رکھ کر بے ہوش ہو جائے گا۔“
”معاویہ کے ساتھ میرا کیا تعلق ہے۔“شمامہ بے قابو ہوتی دھڑکنوں کو سنبھالنے لگی۔
”ہے نہیں تو ہو جائے گا۔“بسمہ کا لہجہ معنی خیز ہو گیا تھا۔
”اس کے بارے تم کیا جانتی ہو۔“شمامہ کے لہجے میں سنجیدگی در آئی تھی۔
”کچھ بھی نہیں۔میرا بھی آج تیسرا دن ہے۔اس دن رخشندہ سے پتا چلا تھا کہ کسی امیر باپ کی اولاد ہے۔ دولت کے ساتھ اللہ پاک نے شکل و صورت بھی چھپڑ پھاڑ کر دی ہے۔لڑکی ہوتا تو یقینا چاہنے والے شمار نہ کیے جا سکتے۔اب بھی خیر چاہنے والیاں کافی تعداد میں موجود ہوں گی لیکن لڑکیاں چونکہ جذبات پر قابو پانے کی ماہر ہوتی ہیں اس لیے زیادہ تر اپنی چاہت کو دل ہی میں چھپا کر رکھتی ہیں۔اور اس کی زندہ مثال بسمہ لطیف کی شکل میں آپ کے سامنے موجود ہے۔“آخری فقرہ اس نے قہقہ لگا کر کہا تھا۔
شمامہ حیا آلود لہجے میں بولی۔”کتنی بے شرم ہو بسمہ۔“
”سچ بتاﺅ کیا تمھیں اچھا نہیں لگا۔“بسمہ اسے چھیڑنے سے باز نہیں آئی تھی۔ ”اور یاد رکھنا جھوٹ بولنے سے اللہ میاں سخت خفا ہوتا ہے۔“
شمامہ کو اپنے دل سے جو جواب موصول ہو رہا تھا،بسمہ کے سامنے دہرا کر وہ اپنا مذاق نہیں بنانا چاہتی تھی۔بات بناتے ہوئے بولی۔”قسم سے بسمہ بے حیائی کی باتیں کرتے ہوئے تمھیں ذرا بھی جھجک نہیں ہو رہی۔“
”اچھا میری شرمیلی سہیلی،میں خد اکو حاضر ناظر جان کر کہے دیتی ہوں کہ میں ایک لڑکی ہوں اور میرے سامنے نقاب کشائی سے تمھاری عزت و حرمت پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔“
”یہ لو۔“شمامہ نے دائیں بائیں دیکھتے ہوئے احتیاط سے رخ پر پڑا نقاب سرکایا اور اس کے ساتھ ہی آنکھوں سے چشمہ بھی اتار دیا تھا۔اس کی شکل پر نظر پڑتے ہی بسمہ کی آنکھوں میں دنیا جہاں کی حیرت سمٹ آئی تھی۔دو تین لمحوں کے لیے تو وہ بولنے کے قابل ہی نہیں رہی تھی۔شمامہ کی شکل و صورت اس کے تصور سے بالکل مختلف تھی۔ اس اثناءمیں شمامہ نے دوبارہ نقاب اوڑھ کر چشمہ پہن لیا تھا۔
”چلیں،اگلا پیریڈ شروع ہونے والاہے۔“شمامہ کے نقاب اوڑھنے کے بعد وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکی تھی۔
”ہاں چلو۔“شمامہ ہینڈ بیگ سنبھال کر کھڑی ہو گئی تھی۔
﴾۰﴿﴾۰﴿﴾۰﴿
چھٹی کے وقت وہ کلاس روم سے اکٹھی ہی باہر نکلی تھیں۔ معاویہ چند قدموں کے فاصلے سے ان کے تعاقب میں تھا۔شمامہ اسے پیچھے آتا دیکھ چکی تھی اور اس وقت سخت گھبرا رہی تھی۔ پارکنگ کے قریب پہنچ کر بسمہ اس سے رخصت ہو گئی۔ اس کا رخ یونیورسٹی بس کی طرف تھا۔بسمہ کے رخصت ہوتے ہی معاویہ بہ ظاہر جھجکتا ہوا اس کے قریب آیا۔
”مس شمامہ،اگر پسند کریں تو میں آپ کو گھر تک چھوڑ سکتا ہوں۔“
”شش....شکریہ،میں چلی جاﺅں گی۔“نہ جانے وہ کیوں اس سے بات کرتے ہوئے ہکلانے لگتی تھی۔گو مردوں سے بات چیت کرنا اسے پسند نہیں تھا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں تھا کہ اسے مردوں سے ڈر لگتا ہو۔ البتہ معاویہ میں کوئی ایسی بات ضرورتھی کہ اس کی گھبراہٹ ختم ہونے میں نہیں آرہی تھی۔بہت زیادہ اپنا اور عزیز لگنے کے باوجود اس سے بات کرتے ہوئے وہ گڑبڑا جاتی تھی۔
”مس شمامہ،یقین کریں میں ایک شریف لڑکا ہوں۔آپ مجھ پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کر سکتی ہیں۔“
”ی....یہ بات نہیں ہے۔“وہ حسب سابق ہکلا گئی تھی۔”مم....مجھے لینے کے لیے کار آنے ہی والی ہے۔“
”جیسے آپ کی مرضی۔“معاویہ مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی کار کی طر ف بڑھ گیا۔ عقیل بھی اپنی موٹر سائیکل کے ساتھ کھڑا اس کی کار کردگی دیکھ رہا تھا۔اس کے کار کے قریب پہنچتے ہی وہ موٹر سائیکل کو سٹینڈ پر کھڑا کر کے پاس آگیا۔
”کوئی بات بنی؟“
”وحشی ہرنی کی طرح بدک رہی ہے۔بہ ہرحال پہلا دن ہے کافی سے بھی کچھ زیادہ ہو گیا ہے۔دو تین دن بعد دیکھنا کیسے سدھاتا ہوں۔“
عقیل تحسین امیز لہجے میں بولا۔”اس بارے کسی احمق ہی کو شک ہو سکتا ہے۔“
”میں گیا،شگفتہ بڑے غصے میں لگ رہی ہے۔“معاویہ دور سے آتی شگفتہ کو دیکھ کر فوراََ کار میں گھس گیا تھا۔شگفتہ کے قریب پہنچنے سے پہلے اس کی کار حرکت میں آگئی تھی۔
”کمینے نے مجھے دور سے آتے دیکھ لیا تھا ہے نا ؟“عقیل کے قریب رکتے ہوئے وہ پھاڑ کھانے والے لہجے میں مستفسر ہوئی۔
”مجھے کیا معلوم ؟“عقیل انجان بن گیا تھا۔
وہ دانت پیستے ہوئے بولی۔”تمھیں نہیں تو کسے معلوم ہو گا۔بہ ہرحال بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔اسے کہہ دینا شگفتہ کے ساتھ پنگا لینا اسے مہنگا پڑے گا۔“
”کہہ دوں گا شگفتہ باجی۔“معصومانہ لہجے میں کہتے ہوئے وہ موٹر سائیکل کی طرف بڑھا۔
”اور ہاں۔“
شگفتہ کے پکارنے پر وہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔
”میرا نام شگفتہ باجی نہیں،شگفتہ احسان ہے۔ امید ہے آئندہ یاد رہے گا۔“یہ کہتے ہی وہ عقیل کا جواب سنے بغیر اپنی قیمتی کار کی طرف بڑھ گئی۔ اسی وقت نئے ماڈل کی قیمتی مرسیڈیز پارکنگ میں داخل ہوئی۔کار کا کالارنگ شیشے کی طرح چمک رہا تھا۔شمامہ اگلی نشست کا دروازہ کھول کر ڈرائیور کے ساتھ ہی بیٹھ گئی تھی۔
”اس کمینے کو ایک سے بڑھ کرایک امیر زادی ہاتھ آجاتی ہے،امید کرتا ہوں اس کی موت کسی امیر زادی کے ہاتھ ہی لکھی ہوگی۔“خودکلامی کے انداز میں بڑبڑاتے ہوئے وہ موٹر سائیکل کو کک مارنے لگا۔شمامہ کی مرسیڈیز سبک رفتاری سے پارکنگ سے باہر جا رہی تھی۔
﴾۰﴿﴾۰﴿﴾۰﴿
”دن کیسا گزرا میرے بیٹے کا ؟“مرسڈیز کے آگے بڑھتے ہی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ادھیڑ عمر شخص نے شفقت بھرے لہجے میں پوچھا۔
”بہت اچھابابا جان۔“شمامہ کے لہجے میں شامل خوشی کسی تعارف کی محتاج نہیں تھی۔
”لہجے سے تو میرا بیٹا بہت خوش نظر آرہا ہے۔“ان کا لہجہ مسرت سے پر تھا۔
وہ چہکی۔”ہاں بابا جان،میں واقعی بہت خوش ہوں۔ آج یونیورسٹی میں بہت مزہ آیا۔ ایک لڑکی بھی میری دوست بن گئی ہے۔قسم سے اتنی مخلص اور اچھی ہے کہ بتا نہیں سکتی۔“
”صرف لڑکی ؟“ان کے لہجے میں شفقت کے ساتھ شرارت بھی پنہاں تھی۔
”کیا مطلب ؟“شمامہ نے چشمہ اتارتے ہوئے انھیں تیز نظروں سے گھورا۔
ڈرائیو رنے تصدیق چاہنے والے انداز میں کہا۔”روبینہ،ماریہ،سنبل وغیرہ بھی تمھاری سہیلیاں تھیں نا۔“
”ہاں، مگر انھوں نے تو دوسری یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے،آپ جانتے تو ہیں کہ یہ کافی مہنگی یونیورسٹی ہے۔میرا داخلہ بھی تو سیٹھ صاحب کی مہربانی سے ممکن ہو پایا ہے۔“
ڈرائیور کا قہقہ بلند ہوا۔”شمامہ رانی !....میرا مطلب تھا کہ لڑکیوں سے دوستی تو پرانی بات ہے۔ اب یونیورسٹی میں آکر بھی ایک لڑکی ہی کو دوست بنا کر کیا تیر مار لیا۔“
شمامہ تیز لہجے میں مستفسر ہوئی۔”یعنی مجھے لڑکے سے دوستی کرنا چاہیے تھی۔“
وہ جلدی سے بولے۔”توبہ توبہ،کتنی بے باک ہوتی جارہی ہے شمامہ رانی،کیا میں ایسا کہہ سکتا ہوں۔“
” آپ میرا مذاق رہے ہیں۔میں بتا رہی ہوں پکی کٹی ہوجائے گی۔“
ادھیڑ عمر ڈرائیور نے جاندار قہقہ بلند کیا۔ ”اچھا معذرت دوبارہ نہیں چھیڑوں گا۔ “
”بابا جانی !....جس دن کوئی پسند آیا اور اس نے بھی میری ذات میں دلچسپی ظاہر کی سب سے پہلے آپ کو مطلع کروں گی۔“یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں کے سامنے معاویہ کا وجیہہ چہرہ جھلملا رہا تھا۔ اس نے آنکھیں بند کر کے سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا لی تھی۔” مجھ میں کیا اچھا لگا کہ اتنی چاہت سے گھور رہے تھے۔“اس کی سوچ معاویہ سے مستفسر ہوئی،مگر اس کے جواب کے بجائے اسے باپ کا جواب سنائی دیا۔
”لازمی بات ہے سب سے پہلے قریبی دوست ہی کو باخبر کیا جاتا ہے اور مجھ سے زیادہ تمھاراقریبی دوست کون ہے؟“
وہ جذباتی لہجے میں بولی۔”میں قسم کھا کر کہہ سکتی ہوں کہ آپ سے اچھا بابا کسی کا بھی نہیں ہو گا۔“
تقریباََہر لڑکی کی نظر میں اس کا باپ ہیرو اور دنیا کے تمام مردوں سے بڑھ کر اسے عزیز و محترم ہوتا ہے۔لیکن شمامہ رانی اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی جذباتی تھی۔ اورکیوں نہ ہوتی کہ محمدیوسف نے نہ صرف اسے ماں و باپ دونوں کا پیار دیا تھا بلکہ اس کا معاملہ بیٹی کے ساتھ ایک گہرے دوست والا تھا۔وہ اپنی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات باپ کے سامنے بیان کرتے ہوئے ذرابھی جھجک محسوس نہیں کرتی تھی۔سر کا سائبان اور محافظ ہونے کے ساتھ وہ اس کا بہترین رازداں،اچھا مشورہ دینے والا ساتھی اور بے تکلف دوست بھی تھا۔شمامہ رانی بجا طور پر اپنے والد پر فخر کر سکتی تھی۔
وہ محمدیوسف کی اکلوتی اولاد تھی۔اس سے چھوٹے دو بھائی اور ایک بہن پیدائش کے ساتھ ہی اللہ پاک کو پیارے ہو گئے تھے۔تیسرے بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی نوشین بی بی بھی جانبر نہیں رہ سکی تھیں۔اس وقت شمامہ رانی پانچویں کلاس میں تھی۔وہ سارا دن اسکول میں اپنی سہیلیوں کو نئے بھائی کی آمد کی خوش خبری سناتی رہی۔ اور جب چھٹی کے وقت گھر پہنچی تو ماں کے انتقال کی روح فرساخبر اس کی منتظر تھی۔محمدیوسف اپنی شریک حیات کی موت پر اتنے حیران و پریشان تھے کہ اس ننھی جان کو بھول گئے تھے۔ اس کا رونا ، سسکنا سن کر محمدیوسف پر اذیت کے نئے در وا ہوئے۔ اپنا غم بھلا کروہ بیٹی کی دل جوئی میں لگ گئے۔اس سے پہلے وہ شمامہ رانی کے ابو جان تھے۔ اس دن سے وہ اس کی ماں،دوست،ساتھی،رازدارسہیلی اور سب کچھ بن گئے۔ گہرے گھاﺅ کی اگر اچھے سے مرہم پٹی کی جائے اور ضروری احتیاطوں کو نظر انداز نہ کیا جائے تو زخم بھرتے دیر نہیں لگتی۔ ماں کا نعم البدل ملنا ناممکن ہوتا ہے مگر انھوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔شمامہ رانی ماں کو بھلا تو نہ سکی،مگر ماں کی غیر موجودی،اس کی زندگی میں کوئی ایسا خلا اور کمی پیدا نہ کر سکی جس کا شکار بن ماں کی بیٹیاں ہو جاتی ہیں۔
محمدیوسف نوجوانی ہی میں سیٹھ عبد الکریم صالح کے ذاتی ڈرائیوربن گئے تھے۔سیٹھ عبدالکریم کی وسیع و عریض کوٹھی کی چاردیوار ی کے اندر ہی ملازموں کے دو کوارٹر بنے ہوئے تھے جس میں سے ایک محمدیوسف کے تصرف میں تھا۔ان کی بیوی نوشین نے اپنی حیات میں سیٹھ صاحب کا باورچی خانہ سنبھالا ہوا تھا۔شمامہ رانی کے جوان ہونے پر سیٹھ عبدالکریم نے خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ بھی کوٹھی کا باورچی خانہ سنبھال لے۔ شمامہ کے خانساماں کی ذمہ داریاں سنبھالنے پر انھیں معاشی فائدہ ضرور مل جاتا کہ سیٹھ عبدالکریم صالح خدا ترس اور اور نیک دل آدمی تھے۔ لیکن محمدیوسف کو یہ مناسب نہیں لگا تھا۔جہاںدیدہ بیوی کی بات دوسری تھی اور جوان بیٹی کا معاملہ جدا۔ان کی خواہش کے احترام میں تو لڑکپن کی حدود میں قدم رکھتے ہی شمامہ نے کوٹھی میں جانا چھوڑ دیا تھا۔ سیٹھ عبدالکریم کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔دونوں بیٹے نہایت سعادت مند اور شفاف کردار کے مالک تھے۔ اس کے باوجود شمامہ ان کے سامنے بے نقاب ہونا پسند نہیں کرتی تھی۔
”اچھا کھانا تو کھا لیا تھا ناں۔“سفید رنگ کے خوب صورت گیٹ کے سامنے کار روک کر وہ بیٹی کی طرف متوجہ ہوئے۔
وہ پیٹ پرہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔”کچھ بھی نہیں کھایا بابا جان،بہت سخت بھوک لگی ہے۔“
”کہابھی تھا ”لنچ بکس“ ساتھ رکھ لو۔“ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کار آگے بڑھا دی ۔ چوکیدار نے دروازہ کھول دیا تھا۔
”باباجانی،یہ دیکھیں پرس میں پیسے موجود تھے،لیکن کچھ کھانے کا خیال ہی نہیں آیا۔“ اس نے دوسرخ نوٹ والد کی آنکھوں کے سامنے لہرائے۔
”اچھا کل سے اپنے ساتھ کھانا لے جانا۔“مرسڈیز کو دو کاروں کے درمیان کھڑا کرتے ہوئے انھوں نے چابی گھما کر انجن بند کر دیا۔
”باباجان،عجیب لگتا ہے۔وہاں اتنے امیر طلبہ پڑھنے آتے ہیں میرا ”لنچ بکس “ دیکھ کر ہنسیں گے۔“کار سے اتر کر باپ بیٹی اپنے کوارٹر کی طرف بڑھ گئے تھے۔پارکنگ سے ان کے کوارٹر تک سیمنٹ کی پختہ روش بنی ہوئی تھی۔کوارٹر کوٹھی کے عقبی جانب ایسی جگہ پر بنے تھے کہ داخلی دروازے سے نظر نہیں آرہے تھے۔
”تو روزانہ ایسے ہی بھوکی رہو گی۔پہلے ہی اتنی کمزور ہو۔“یوسف کے لہجے میں ممتا کی سی فکر مندی گھلی تھی۔
وہ مسکرائی۔”باباجان،اتنی ہٹی کٹی تو ہوں۔آپ سے دو تین کلو گرام زیادہ ہی وزن ہو گا۔“
”کل یونیورسٹی سے واپسی پر تمھیں وزن کرانے لے جاﺅں گا،دیکھتا ہوں کتنی کچھ وزنی ہو۔“
”بس اپنی دوست کا مذاق اڑاتے رہنا۔“منھ بناتے ہوئے اس نے کوارٹر کا بیرونی دروازہ کھولا اور باپ کو رستا دینے کے لیے دروازے سے ہٹ گئی۔مختصر صحن،چھوٹا سا باورچی خانہ، غسل خانہ و بیت الخلا،ان کے اوپر بنا سٹور، دو رہائشی کمرے اور ان کے سامنے بنے چھوٹے سے برآمدے پر مشتمل کوارٹر، باپ بیٹی کی ضروریات کے لیے کافی تھا۔محمدیوسف کو اللہ پاک نے شکر بھرا دل نصیب کیا تھا اور اس کی نیک فطرت کے اثرات شمامہ رانی میں بھی بدرجہ اتم موجود تھے۔
”نہیں میں واپس چلوں گا۔سیٹھ صاحب نے ”سائیٹ“ پر چکر لگانے جانا ہے۔“محمدیوسف نے اندر داخل ہونے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ”تم تازہ دم ہو کر کھانا کھاﺅ،اتنا زیادہ بھی نہ ٹھونس لینا کہ رات کو دستر خوان پر مجھے اکیلا بیٹھنا پڑے۔ “
”کبھی نہ کھانے پر گلہ اور کبھی زیادہ کھانے کی شکایت۔باباجان آپ بس تنقید ہی کرتے رہنا۔“لاڈ بھرے انداز میں کہتے ہوئے وہ کوارٹر میں داخل ہوگئی۔داخلی دروازہ کنڈی کر کے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی۔درمیانی حجم کے کمرے کی سجاوٹ دیکھنے والی تھی۔کمرے میں سبز رنگ کی اجارہ داری واضح نظر آرہی تھی۔کھڑکی و دروازے کے پردے، بستر کی چادر، دیواریں و چھت،کھڑکیوں و الماری کے پٹ، دروازے کے کواڑتمام سبز رنگ میں رنگے تھے۔کمرے کے ایک کونے میں کتابوں کا” ریک “دھرا تھا۔جو اس کی چارپائی کے تکیے سے بالشت بھر کے فاصلے پر تھا۔یوں کہ چارپائی پر لیٹے لیٹے وہ مرضی کی کتاب پکڑ سکتی تھی۔ کھڑکی و دروازہ برآمدے کی دیوار میں بنے تھے۔اس سے متصل دائیں جانب کی دیوارمیں اس کی چارپائی لگی تھی۔عقبی دیوار پر تین خوب صورت تصاویرٹنکی تھیں۔ درمیان والی خانہ کعبہ، اس کے دائیں مسجد نبوی ﷺاوربائیں مسجد اقصیٰ کی پر نور تصاویر تھیں۔ چھت سے لٹکتے پنکھے کو بھی سبز رنگ میں رنگا گیا تھا۔بائیں طرف کی دیوار کے ساتھ لکڑی کی تین کرسیاں پڑی تھیں جن پر فوم کی گدیاں رکھی ہوئی تھیں۔کرسیوں کے سامنے لکڑی کی میز پڑی تھی۔ میز پر بھی سبز رنگ کا صاف ستھرا کپڑا بچھا تھا۔چارپائی کی بائیں جانب ایک چھوٹی سی تپائی رکھی تھی جس پر پلاسٹک کا کولر اور گلاس رکھا ہوا تھا۔کھڑکی اور دروازے کے درمیانی خلا میں دو فٹ چوڑا اور تین فٹ لمبا آئینہ لگا تھا۔اس کے سامنے لکڑی کی چھوٹی سی ٹیبل رکھ کر سنگھار میز کی شکل دی گئی تھی۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ نقاب اتار کر آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ خود کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے اس کے خیالوں میں معاویہ آدھمکا۔
”کیا مجھے اس حالت میں دیکھ کر بھی تمھاری نظریں یونھی چاہت کا اعلان کریں گی۔“ خود کلامی کے انداز میں بڑبڑاتے ہوئے وہ معاویہ کو مخاطب ہوئی اور پھر ایک دم اس کے چہرے پر حیا کی سرخی پھیل گئی۔
”یہ میں کیا سوچ رہی ہوں؟“خفت بھرے انداز میں خود کو سرزنش کرتے ہوئے وہ چارپائی کی طرف بڑھ گئی۔زندگی میں پہلی مرتبہ اسے کسی نے ان نظروں سے دیکھا تھا اور زندگی میں پہلی ہی مرتبہ اس کا دل کسی کے لیے یوں بے طرح دھڑک رہا تھا۔اپنے بابا کو چھوٹی سے چھوٹی بات سے آگاہ رکھنے والی معاویہ کے بارے زبان نہیں کھول سکی تھی۔
”مجھے بابا جان سے بات کرنا پڑے گی۔“اس کے دماغ میں فیصلہ کن سوچ ابھری۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے نفی میں سرہلا کر اپنی سابقہ سوچ سے رجوع کیا ....
” کہوں گی کیا کہ ایک لڑکا مجھے چاہت بھری نظروں سے گھور رہا تھا؟....ہو سکتا ہے وہ ہر کسی کواسی طرح ہی دیکھتا ہو اور مجھے بار بارگھورنے کی وجہ میرا نقاب اوڑھنا ہو سکتا ہے۔“
وہ کافی دیر اسی سوچ میں کھوئی چارپائی پر بیٹھی رہی اچانک اس کی نظر کھڑکی سے اوپر ٹنگی گھڑی پر پڑی۔سوئیاں ساڑھے تین بجنے کا اعلان کر رہی تھیں۔نماز پڑھنا اور کھانا کھانا اسے بھولا ہوا تھا۔
”میرے اللہ پاک جی،مجھے معاف کر دینا۔“نماز پڑھنے میں تاخیر پر توبہ کرتے ہوئے وہ غسل خانے کی طرف بڑھ گئی۔اب کھانے سے پہلے نماز پڑھنا ضروری ہو گیا تھا۔
جاری ہے
Comments
Post a Comment