bhugtan novel riaz aqib Kohler part 3
TAGS
bhugtan novel riaz aqib Kohler
#BhugtanNovelRiazAqib
riaz aqib novel list
riaz aqib kohler novels download
riaz aqib kohler novels list
rakhail novel by riaz aqib kohler complete
riaz aqib kohler novels free download
riaz aqib kohler novels pdf free download
riaz aqib kohler novels faisla
pasheman novel by riaz aqib download
bhugtan novel riaz aqib Kohler
#BhugtanNovelRiazAqib
riaz aqib novel list
riaz aqib kohler novels download
riaz aqib kohler novels list
rakhail novel by riaz aqib kohler complete
riaz aqib kohler novels free download
riaz aqib kohler novels pdf free download
riaz aqib kohler novels faisla
pasheman novel by riaz aqib download
Bhugtan Novel Riaz Aqib Kohler part 3 |
بھگتان۔۔۔
قسط نمبر3
ریاض عاقب کوہلر
وہ صبح کے بعد سے مسلسل غائب تھا۔ شمامہ کو عجیب سی بے چینی محسوس ہو رہی تھی۔ بار بار اس کی نظریں معاویہ کی نشست کی طرف اٹھتیں اور مایوس ہو کر پلٹ آتیں۔
”کہیں مجھ سے خفا تو نہیں ہو گیا۔میں نے اتنے سخت لہجے میں جو بات کر دی تھی۔“ دسیوں بار یہ اذیت بھری سوچ اس کے دل کو تکلیف دے چکی تھی۔
”شاید شگفتہ کی وجہ سے پریشان ہو۔“مسلسل اذیت ناک سوچوں کے بعداس کے دل میں امید کی کرن چمکی۔اس کے ساتھ ہی اسے شگفتہ پر غصہ آیا جو ایک معصوم اور بھولے بھالے لڑکے کو اذیت دینے کا باعث بنی تھی۔
”مجھے نہیں لگتا کہ تم کلاس میں حاضر ہو۔“بسمہ اس کی شکل نہیں دیکھ سکتی تھی لیکن اس کا جھکا ہواسر اور کاپی پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچتا قلم اس کی نگاہ میں تھا۔
”آں ....کیا کہا۔“بسمہ کی سرگوشی نے اسے چونکا دیا تھا۔
”یہی کہ جب وہ گھورتا ہے تو تم بے چینی محسوس کرتی ہو اور اب موجود نہیں ہے تب بھی تمھیں سکون نہیں آرہا۔“
”کوئی مسئلہ ہے مس بسمہ !“پروفیسر احمد نے انگریزی میں پوچھا تھا۔
”نہیں سر۔“بسمہ جلدی سے ان کی طرف متوجہ ہو گئی۔
”مہربانی ہو گی اگر دوران سبق صرف مجھے ہی بولنے کا حق دار سمجھا جائے۔“ اس مرتبہ بھی اس نے انگریزی ہی کا سہارا لیا تھا۔
”دوبارہ موقع نہیں دوں گی سر۔“بسمہ خفیف ہوتے ہوئے بولی۔اورپروفیسر احمدہلکاسا سر ہلا کر سبق کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔شمامہ دل ہی دل میں پروفیسر صاحب کو دعائیں دینے لگی جن کی وجہ سے بسمہ کے تیکھے سوالات سے جان چھوٹی تھی۔اب تک تو اس نے معاویہ کی پیش قدمی کے بارے اسے مطلع نہیں کیا تھا ورنہ جس قسم کی وہ لڑکی تھی لازماََ اس کی جان کو آجاتی۔اور جب تک اس کے دل کی بات نہ اگلوا لیتی آرام سے نہ بیٹھتی۔
چھٹی کے وقت تک بھی وہ اپنی حالت پر قابو نہیں پا سکی تھی۔”پتا نہیں کیا ہو گیا ہے مجھے۔“ وہ اپنے سستے خیالات پر خفیف تھی۔پارکنگ تک وہ بسمہ کے ساتھ ہی گئی تھی۔نہ معلوم وہ کس موضوع پر بے تکان بولے جا رہی تھی۔شمامہ بغیر سمجھے بوجھے ”ہوں،ہاں “میں جواب دیتی رہی۔ معاویہ کے علاوہ اس کے دماغ میں کوئی سوچ بھی جگہ نہیں پا رہی تھی،نہ اس کے علاوہ اسے کچھ سوجھ رہا تھا۔
بسمہ کے رخصت ہوتے ہی اس کی نظریں بے ساختہ معاویہ کی کار کی جانب اٹھ گئی تھیں۔اور یہ دیکھتے ہی اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا کہ وہ اپنی کار کی چھت پر کہنی ٹیکے اسی کی طرف متوجہ تھا۔کوشش کے باوجود وہ نظریں واپس نہیں موڑ سکی تھی۔
معاویہ کے ہونٹوں پر وہی ملکوتی تبسم ہویدا تھا جو اسے انجانی راہوں کی جانب کھینچنے لگتاتھا۔
”اتنی دیر تک کہاں چھپے تھے ....جانتے بھی ہیں کتنی بے چین تھی۔“اس کے دل نے شکوہ کیا۔لیکن ہونٹوں پر دماغ کا پہرہ تھااس لیے وہ بات معاویہ کی سماعتوں تک نہیں پہنچ پائی تھی۔البتہ معاویہ کو دیکھ کر اس کا دل مطمئن ہو گیا تھا کہ وہ اس سے خفا نہیں تھا۔
اس کی محویت میں کار کے ہارن نے خلل ڈالا تھا۔اس نے چونکتے ہوئے سامنے دیکھا۔محمدیوسف کار کا شیشہ نیچے کیے معنی خیز انداز میں مسکرا رہے تھے۔وہ جلدی سے اگلی سیٹ کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔کار آگے بڑھاتے ہوئے وہ شوخ لہجے میںبولے۔
”لگتا ہے آج کچھ نیا سننے کو ملے گا۔سہیلیوں کی باتیں سن سن کر تنگ آگیاتھا۔“
”خوش فہمی ہے آپ کی۔“
محمدیوسف نے شرارت بھرے لہجے میں پوچھا۔”سرخ رنگ کی سپورٹس کارکے ساتھ ٹیک لگائے کون کھڑا تھا؟“
”مم....مجھے کیا پتا باباجان۔“وہ گھبرا گئی تھی۔
محمدیوسف ہنسے”شمامہ رانی جھوٹ تو کبھی نہیں بولتی۔“
”معاویہ نام ہے بابا جان !....پتا نہیں مجھ میں کیوں دلچسپی لے رہا ہے۔“
”مجھ سے کیوں چھپایا؟“
وہ سرعت سے بولی۔”بابا جان !....اس میں بتانے کو تھا ہی کیا؟یوں بھی مجھے کسی کے دلچسپی لینے کی پروا نہیں ہے۔“
” اسے مسلسل گھور کیوں رہی تھیں۔“
”غصے سے گھور رہی تھی۔“اس نے دوبارہ دل کی حالت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔
”نقاب میں چھپا ہوا چہرہ اور چشمے سے ڈھکی آنکھوں سے کسی کو گھور کر غصہ دکھانا یقینا غصے کے اظہار کا جدید طریقہ ہے۔“محمدیوسف اسے جھٹلانے پر تلے تھے۔
وہ مایوس کن لہجے میں بولی۔”بابا جان وہ بہت امیر باپ کی اولاد ہے۔اور پھر آج کی جدید لڑکیوں سے میرا مزاج بالکل ہی مختلف ہے۔میرے لیے کسی ایسے لڑکے کاخیال دل میں لانا حماقت ہو گی۔“
”شکر ہے مان تو لیا کہ وہ تمھیں پسند آیا ہے۔“محمدیوسف کی گفتگو سے محسوس ہی نہیں ہورہا تھا کہ وہ بیٹی کو مخاطب ہیں۔ان کے اندازسے لگ رہا تھا جیسے وہ شمامہ کی قریبی سہیلی ہوں۔ان کی اسی وسعت قلبی نے شمامہ کو اتنا اعتماد دیا تھا کہ وہ ہر بات کھل کر انھیں بتا دیتی تھی۔
وہ دکھی لہجے میں بولی۔”پسندیدگی کا نہیں،اپنی حماقت کا اعتراف کیا ہے باباجان۔“
محمدیوسف تسلی دیتے ہوئے بولے۔” بن دیکھے تمھاری ذات میں دلچسپی لینا ظاہر کر تا ہے کہ اسے شکل و صورت سے نہیں سیرت سے غرض ہے۔اور میری شمو رانی سے خوب صورت اوراچھی سیرت کی لڑکی اسے چراغ ڈھونڈے نہیں ملے گی۔“
”ہم کسی اور موضوع پر بات کر سکتے ہیں۔“ اس نے بہ ظاہر ناگواری کا اظہار کیا تھا۔ لیکن اپنے دل کی دھڑکنوں کو معاویہ کا نام جپنے سے نہیں روک سکی تھی۔
”بالکل۔“محمدیوسف مسکرائے۔”لیکن تمھارا اس موضوع سے فرار میری سمجھ میں نہیں آرہا۔“
”بس آپ کو مذاق اڑانے کا بہانہ مل گیاہے۔اتنے ہی تنگ ہیں تو باندھ دیں کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کے پلّے۔“اپنی حالت چھپانے کے لیے وہ لڑائی پر تیار ہو گئی تھی۔
” شمو رانی!....کیا یہ ممکن ہے کہ میں تم سے تنگ آ جاﺅں۔“
”کبھی نہیں۔“ذرا کھسک کر شمامہ نے ان کے کندھے پر سر رکھ دیاتھا۔”میرے باباجان میرا فخر ہیں۔“
وہ سنجیدہ ہوتے ہوئے بولے”اچھا سچ بتاﺅ،کہیں وہ لڑکا تمھیں تنگ تو نہیں کر رہا؟“
”نہیں باباجان !“اس نے نفی میں سرہلایااور دل میں سوچنے لگی۔”بس جب نظر نہیں آتا تو ذرا بے چین ہو جاتی ہوں۔“
وہ کوٹھی میں داخل ہو گئے تھے، اسے کوارٹر تک چھوڑ کر محمدیوسف واپس مڑ گئے۔
﴾۰﴿﴾۰﴿﴾۰﴿
”یار!....قسم سے دو ایکٹر رقبہ تو ہوگا شمامہ رانی کی کوٹھی کا۔“
”اس کی کوٹھی تک بھی ہو آئے؟“عقیل کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔
”اندر داخل ہونے کا کہاں موقع ملا ہے بے وقوف۔“معاویہ نے اس کی کم عقلی پر افسوس بھرے انداز میں سر ہلایا۔”کل اس کی کار کا تعاقب کر کے باہر ہی سے اس کے عالیشان محل پرایک نظر ڈالی تھی ۔باقی یہ تو تمھیں اچھی طرح پتا ہو گا کہ شکار کے والدین یا بھائیوں سے تعلق پیدا کرنا میرے اصولوں کے منافی ہے۔“
عقیل تحسین آمیز لہجے میں بولا۔”جو کوٹھی میرے شہزادے کو باہر سے متاثر کر گئی ہے وہ اندر سے کیسی ہو گی۔“
”تم نے شگفتہ احسان کی خیر خبر نہیں پوچھی۔“معاویہ نے موضوع تبدیل کیا۔
”کیاپوچھوں،جیسے ہی تمھارا دیا ہو چیک کیش نہ ہوا ساری یونیورسٹی تمھاری عزت ہوتے سن لے گی بلکہ اکثریت دیکھ بھی لے گی۔“
”ہونہہ!“معاویہ کے ہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔”اگر وہ تمھیں میرے پاس پھٹکتے ہوئے بھی نظر آگئی تو منھ مانگا انعام دوں گا۔“
”مطلب اپنی تصاویر دیکھ کر ڈر گئی؟“
وہ خباثت بھرے لہجے میں بولا۔”ڈھیٹ تھی اس لیے ڈر گئی ورنہ ایسی تصاویر دیکھ کر لڑکیاں مر جایا کرتی ہیں۔“
”شمامہ بے چاری کے ساتھ ایسا کچھ نہ کرنا یار!....ورنہ بلا شک و شبہ وہ خودکشی کر لے گی۔“عقیل کی آنکھوں میں نقاب پوش لڑکی کا سراپا لہرایا اور اس نے اندیشہ ظاہر کرنے میں تامّل نہیں کیا تھا۔
معاویہ بے رحمی سے بولا۔”اگر شیر،ہرن و غزال کی معصومیت کے چکروں میں پڑ گیا تو یقینا بھوکا مرے گا۔“
”بہت ظالم ہو یار۔“
”اسے ظلم نہیں حقیقت پسند ی کہتے ہیں۔ باقی میںزورزبردستی تو نہیں کرتا۔ کسی کواپنی عصمت و حرمت سے پیارہو تو نہ پڑے میرے چکر میں۔“
”ان شاءاللہ شمامہ رانی تیرے قابو میں نہیں آئے گی۔“عقیل نے امید ظاہر کی۔
”ہا....ہا....ہا۔“معاویہ نے زوردار قہقہ بلند کیا۔”دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔“
عقیل فکر مندی سے بولا۔”یہ قہقہ اور معنی خیز مصرع ظاہر کر رہا ہے کہ تمھیں اس محاذ پر کامیابی ملنے والی ہے۔“
معاویہ فخریہ لہجے میں بولا۔”کل ڈرائیور نے کار لا کر اس کے سامنے روک دی لیکن وہ ما بدولت کی زیارت میں یوں محو تھی کہ اسے کار کے آنے کا پتا ہی نہ چل سکا مجبوراََ ڈرائیور کو ہارن بجا کر اسے متوجہ کرنا پڑا۔“
”مجھے شمامہ رانی سے یہ امید نہیں تھی۔“عقیل نے افسوس بھرے انداز میں سر ہلایا۔ ”وہ کیا کہتے ہیں....
ع جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔“
”کیا کرے بے چاری،معاویہ علی صدیقی کی وجاہت کونظر انداز کرنا اتنا آسان تو نہیں ہے۔“ اس کے لہجے میں اپنی خوب صورتی کا زعم کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔
”اور اس خوب صورت چہرے کے پیچھے جو مکاری چھپی ہے وہ ان بے وقوفوں کو کیوں نہیں نظر آتی؟“
”قصور ان بے چاریوں کا نہیں ہے۔صیّاد جال پھیلاتا ہی اس خوب صورتی سے ہے کہ چڑیوں کا پھنسنا لازم ہو جاتا ہے۔“
”دعا ہی کر سکتا ہوں کہ چڑیوں کی جگہ کبھی کوئی شیرنی اس جال میں آپھنسے۔“
معاویہ نے منھ بنایا۔”شیرنی ہو گی گیدڑوں کے لیے،شیر کے سامنے اس کی کیا حیثیت ہو گی۔“
عقیل حسرت سے بولا۔”کاش کبھی تمھیں بھی محبت ہو۔“
معاویہ استہزائی انداز میں ہنسا۔”عقیل میاں !....کبھی پتھر کو جونک لگنے کے بارے نہیں سنا ہو گا۔اور میرا تو ایمان ہے کہ ....
باز رہتے ہیں جو محبت سے
ایسے احمق ذہین ہوتے ہیں
عقیل اٹھتے ہوئے بولا۔”میرا خیال ہے چلنا چاہیے۔پیریڈ شروع ہونے والا ہے۔“
”یوں کہونا شمامہ رانی اپنی منتظر ہو گی۔“
عقیل جلے بھنے لہجے میں بولا....
”احمقوں کی کمی نہیں غالب
ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں“
﴾۰﴿﴾۰﴿﴾۰﴿
پیریڈ شروع ہونے تک وہ بار بار بے چینی کے انداز میں معاویہ کی خالی نشست کو کن اکھیوں سے دیکھتے ہوئے خود سے پوچھتی رہی۔”پتا نہیں کہاں غائب ہے؟“
اور پھر پروفیسرصاحب کے کمرہ جماعت میں داخل ہونے سے پہلے معاویہ کو آتے دیکھ کر اس کا دل خوشگوار انداز میں دھڑکنے لگا تھا۔
”کم از کم اتنا ہی سوچ لیا کریں کہ کوئی کس شدت سے آپ کا منتظر ہے۔“ اس کے دماغ میں شکوہ کرتی سوچ ابھری۔
معاویہ نے اندر داخل ہوتے ہی اسے قربان ہونے والی نظروں سے گھورنا شروع کر دیا تھا۔اس کی چشمے میں چھپی آنکھیں حیا سے جھک گئی تھیں۔
”اتنی بے باک آنکھیں ہیں ذرا بھی نہیں شرماتیں۔“اپنے آپ میں سمٹتے ہوئے وہ خفیف سا مسکرادی تھی۔
نشست سنبھالنے سے پہلے وہ تمام کلاس کو متوجہ کر کے کہنے لگا۔شعر عرض کیا ہے ....
چشمہ دکھلاتے ہو چہرہ بھی دکھا دو صاحب
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا
”واہ ....واہ،بہت خوب،عمدہ ....“چند منچلوں کے مختلف فقرے بلند ہوئے۔
ایک لڑکی مسکراتے ہوئے بولی۔”چشمہ نہیں،شاعر نے آنکھیں کہاہے معاویہ صاحب۔“
معاویہ برجستہ بولا۔”ہمارے والی آنکھیں بھی نہیں دکھلاتی غزالہ جی۔“
زور کا قہقہ گونجا۔کچھ لوگوں کی نظریں شمامہ کی جانب اٹھیں۔وہ غریب حیا سے پسینہ پسینہ ہو گئی تھی۔
”کتنا شرارتی ہے۔“دل میں امڈتی محبت نے اس کی بے ہودہ گوئی کی بھی توجیہ کر لی تھی۔
بسمہ شمامہ کوکہنی رسید کرتے ہوئے شرارتی لہجے میں معاویہ کو مخاطب ہوئی۔ ”پھر آپ گلا کریں گے کہ آنکھیں دکھاتی ہے ؟“
”بسمہ بہن!....میں نے آنکھیں دکھلانے کا کہا ہے دکھانے کا نہیں۔اور سچ تو یہ ہے کہ کوئی تو ایسا ہونا چاہیے جو ہمیں بھی آنکھیں دکھا سکے۔“معاویہ کے لہجے میں اخلاق اور نرمی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔
”اسے کیسے معلوم ہواکہ اس کا بسمہ کو بہن کہنا مجھے اچھا لگے گا۔“شمامہ سر جھکاکر سوچنے لگی۔اس بحث کا خاتمہ پروفیسر کے کمرہ جماعت میں داخل ہونے پر ہوا تھا۔
بسمہ دوسرے پیریڈ کے بعد ضروری کام کا بتا کر رخصت ہو گئی تھی۔آخری پیریڈ میں اچانک کاغذ کی گولی اس کی گود میں آگری۔وہ چونک گئی تھی۔سب سے پہلے اس نے معاویہ کی جانب دیکھا۔وہ آنکھ کے اشارے سے اسے کاغذ اٹھانے کا کہہ رہا تھا۔دھڑکتے دل سے اس نے کاغذ کی سلوٹیں سیدھی کیں۔
”پلیز،چھٹی ہونے کے بعد کلاس روم سے باہر نہ جانا،آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔“نیچے اس کا نام اور موبائل فون نمبربھی لکھا تھا۔
مختصر سا پیغام پڑھ کر وہ پسینہ پسینہ ہو گئی تھی۔ آج تک وہ کسی غیر لڑکے کو تنہائی میں نہیں ملی تھی۔اس بات کو غلط جاننے کے ساتھ اس میں اتنی جرّات بھی مفقودتھی کہ کسی لڑکے کا سامنا کرتی۔چھٹی کے وقت وہ اس پیغام پر عمل نہیں کر سکی تھی اور پروفیسر صاحب کے باہر جاتے ہی وہ بھی باقیوں کے ساتھ کلاس روم سے باہر نکل آئی تھی۔کلاس روم سے نکلتے وقت اس نے مڑ کر معاویہ پر نگاہ ڈالی وہ سر جھکائے اپنی نشست پر بیٹھا تھا۔اسے اداس دیکھ کر ایک لمحے کواس کا ارادہ ڈانو ڈول ہوا مگر پھر وہ حوصلہ مجتمع نہ کر سکی۔پارکنگ میں کھڑے ہو کر وہ والد صاحب کا انتظار کرنے لگی۔اس دوران وہ بار بار معاویہ کی کار کی جانب بھی دیکھنے لگتی۔
”سخت خفا ہو گا۔“اس کے دل میں عجیب قسم کی بے چینی پیدا ہو گئی تھی۔شاید وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر کلاس روم کی جانب چل بھی پڑتی لیکن محمدیوسف نے آکر اس کے ارادے پر پانی پھیر دیاتھا۔
”شمو رانی کچھ زیادہ ہی خاموش نظر آرہی ہے۔“یونیورسٹی سے باہر آتے ہی اس کے والد نے شوخ لہجے میں پوچھا۔
”بسمہ دو پیریڈ کے بعد چلی گئی تھی اس کے بعد سخت بیزاری محسوس کرتی رہی ہوں۔“ اس کے پاس یہ کہنے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
محمدیوسف شرارت سے بولے۔”تو معاویہ سے گپ شپ کر لینا تھی۔“
معاویہ کے نام پر اس کا دل زور سے دھڑکا تھا۔اپنے احساسات سے والد صاحب کو بے خبر رکھتے ہوئے روہانسے لہجے میں بولی۔”باباجان !....تنگ تو نہ کیا کریں نا۔“
”خود ہی تو کہہ رہی تھیں کہ بہت اچھا،شریف اور سعادت مند لڑکا ہے۔“محمدیوسف اسے چھیڑنے سے باز نہیں آئے تھے۔
اس نے جلے بھنے لہجے میں جواب دیا۔”میں نے لڑکوں سے دوستیاں لگانا شرع کر دیں تو سب سے پہلے آپ ہی نے میرے کان کھینچنے ہیں۔شایدیونیورسٹی جانا ہی بند کردیں۔“
”شمو رانی،میں نے صرف معاویہ کی بات کی تھی،تمھیں تو شاید بہانہ چاہیے تھا لڑکوں سے دوستی کرنے کا فوراََ ہی کھل گئیں۔“محمدیوسف نے شرارت بھرے لہجے میں اس پر چوٹ کی۔
”مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی۔“منھ پھلاتے ہوئے اس نے کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دیا تھا۔
”اگر شام کے کھانے کے لیے مچھلی لانے کا وعدہ کروں تب بھی خفگی برقرار رہے گی۔“محمدیوسف نے صلح کی طرف قدم بڑھائے۔مچھلی کی دیوانی نے ہتھیار ڈالنے میں لمحہ بھی نہیں لگایا تھا۔بے بسی بھرا قہقہ بلند کرتے ہوئے وہ محمدیوسف کی جانب متوجہ ہوئی۔
”آپ مجھے تھوڑی دیر بھی خفا نہیں رہنے دیتے۔“
محمدیوسف بھی بے ساختہ مسکرا دیے تھے۔گھر تک باپ بیٹی کی نوک جھوک چلتی رہی۔ والد صاحب کے لوٹ جانے کے بعد اسے پھر معاویہ کی سوچوں نے گھیر لیا تھا۔
”معذرت خواہ ہوں معاویہ،میں لڑکوں سے بات چیت کرنے کی عادی نہیں ہوں اسی وجہ سے آپ کے حکم کی تعمیل نہ کر سکی۔پلیز مجھے معاف کردینا اورخفا نہ ہونا یہ نہ ہو میرا دل دھڑکنا بھول جائے۔“وہ خیالوں ہی خیالوں میں اس سے معذرت چاہتی رہی،اسے مناتی رہی۔”اور دیکھیں اگر میں آپ کو پسند ہوں تو جلدی سے گھروالوں کو لا کر ابوجان سے میرا رشتا مانگ لو، پھر مجھے آپ سے ملنے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں ہوگی....یہ میں کیا سوچ رہی ہوں۔“شادی کی بات پر اس نے ایک دم شرما کر چہرہ نیچے کر لیا تھا۔
”وہ مجھے دیکھے بغیر کیسے پسند کر سکتا ہے۔“آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر وہ کھوجتی ہوئی نظروں سے اپنے چہرے کا جائزہ لینے لگی۔
”باباجان کا اندازہ صحیح تھا،اسے میری صورت سے نہیں سیرت سے محبت ہو گئی ہے۔ اورامی جان سچ ہی کہتی تھیں کہ سیرت کے تمنائی کی نظر میں صورت کی اہمیت نہیں ہوتی۔“
وہ کافی دیر آئینے کے سامنے کھڑی رہی۔کھانا کھانا اسے بھول گیا تھا۔اور پھر نماز قضا ہونے کی سوچ نے اسے آئینے کے سامنے سے ہٹنے پر مجبور کردیاتھا۔
رات کو کافی دیر تک اسے نیند نہیں آئی تھی۔معاویہ کو سوچنا،تصور کی آنکھ سے اس کے وجیہہ چہرے کو دیکھنا اور دل کی دھڑکنوں کو اتھل پتھل کرتی اس کی جادو بھری آواز کو یاد کرنے میں اسے اتنا لطف اور مزہ آرہا تھا کہ وہ کوشش کے بغیر اس شغل سے باز نہ رہ سکی۔کبھی کبھی وہ اپنے خیالات پر نادم ہو کر خود کو ملامت کرنے لگتی،مگر پھر یہ سوچ کہ وہ اس سے شادی کرنے ہی خواہش مند تھی اور ایسی خواہش کرنا گناہ کے زمرے میں نہیں آتاتھا۔
نیند میں کھونے کے بعد بھی وہ معاویہ کی یاد کو خود سے دور نہیں جھٹک سکی تھی۔سپنوں کی دنیا میں اس کا پر کشش چہرہ مزید جاذب نظر لگ رہا تھا۔وہ دولھا بنا گھوڑے پر سوار،زمانہ قدیم کا کوئی خوب رو شہزادہ دکھائی دے رہا تھا۔
﴾۰﴿﴾۰﴿﴾۰﴿
”قسم سے بڑا مزہ آیا جب وہ تمھاری درخواست کو پاﺅں تلے روند کر مزے سے چلی گئی۔“عقیل پارکنگ میں اس کا منتظر تھا۔اسے دیکھتے ہی وہ چہکنے لگا تھا۔معاویہ کے چہرے پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ نظر آرہی تھی۔
”تمھیں بالکل بھی شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی کہ ایک واجبی شکل کی لڑکی نے تمھاری اتنی زیادہ توہین کر دی۔گو مجھے توبہت اچھا لگا،کم از کم شمامہ رانی نے یہ ضرور ثابت کر دیا کہ ہر لڑکی کھلونا نہیں ہوتی۔“
”ہونہہ!....“معاویہ نے طنزیہ ہنکارا بھرنے پر اکتفا کیا تھا۔
عقیل چہکا۔”کیا ہوا بولتی بند ہو گئی نا۔“
معاویہ نے افسوس بھرے انداز میں سرہلایا۔”کسی احمق کو سمجھانا آسان ہوتا تو دنیا میں کوئی بے وقوف ہی باقی نہ بچتا۔“
”کچھ بھی کہو،شمامہ رانی نے تمھارے چہرے پر بھرپور تھپڑ رسید کیا ہے۔“عقیل اپنی بات پر اڑا تھا۔
معاویہ کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم ابھرا۔”مجھے سو فیصد یقین تھا کہ وہ نہیں رکے گی۔“
عقیل نے جلدی سے پوچھا۔”پھر رقعہ کیوں لکھا؟“
”تاکہ مجھے خفا ہونے کا موقع ہاتھ آئے اور میں اسے نظر انداز کر کے جانچ سکوں کہ آیا اس کے دل میں معاویہ کی محبت پیدا ہو چکی ہے یا مزید محنت کرنا پڑے گی۔“
”کیا مطلب ؟“عقیل بوکھلا گیا تھا۔
معاویہ اطمینان سے بولا۔”اگر مجھے اس کا چہرہ دکھائی دیتا تو تمھیں اس کے احساسات کی بابت سو فیصد بتا سکتا تھا۔اب صرف اندازہ کر سکتا ہوں کہ شمامہ رانی کے دل میں معاویہ کی محبت پرورش پا چکی ہے۔“
”بکواس۔“عقیل نے نفی میں سرہلایا۔
”دو تین دن ٹھہر جاﺅ تمھیں متفق ہوتے ہی بنے گی۔“یہ کہتے ہوئے اس نے کار آگے بڑھا دی۔عقیل بھی دل ہی دل میں کڑھتا اپنی موٹر سائیکل کی جانب بڑھ گیا تھا۔وہ پہلے بھی لڑکیوں کے معاملے میں معاویہ کی پیشن گوئیوں کو پورا ہوتے دیکھتا آرہا تھا۔یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ لیکن کبھی کبھی اس کا دل کرتا کہ وہ شمامہ رانی پر اعتبار کرے۔نجانے کیوں وہ لڑکی اسے دوسری لڑکیوں سے بہت زیادہ مختلف نظر آرہی تھی۔اور وجہ اس کا صرف باپردہ ہونا نہیں تھا۔
﴾۰﴿﴾۰﴿﴾۰﴿
رات کو دیر سے سونے کی وجہ سے وہ صبح نماز کے لیے بڑی مشکل سے اٹھی تھی۔نماز کے بعد وہ تھوڑی دیر تلاوت کرتی اور پھر ناشتا تیار کرنے لگتی۔
ناشتے کی میز پر اسے جمائیاں لیتے دیکھ کر محمدیوسف پوچھے بنا نہیں رہ سکے تھے۔ ”شمو رانی تھکی تھکی لگ رہی ہے۔“
اس کے منھ سے غلطی سے نکلا۔”باباجان،رات کو دیر سے نیند آئی اس وجہ سے کسل مندی محسوس ہورہی ہے۔“
محمدیوسف نے اس کی بات پکڑنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔”گویانیند اڑنے کا مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔“
”باباجان سخت خفا ہو جاﺅں گی۔“جان چھڑانے کے لیے اسے دھمکی کا سہارا لینا پڑا تھا۔
محمدیوسف نے قہقہ بلند کیا۔”ہا....ہا....ہامذاق کر رہا تھا،تم نے تو شایدآج کل خفا ہونے کا ٹھیکا لے رکھا ہے۔“
شمامہ نے منھ بسورا۔”اور آپ نے میرا مذاق اڑانے کی ٹھانی ہوئی ہے۔“
”اچھا جلدی سے تیار ہو جاﺅآج سیٹھ صاحب نے سویرے جانا ہے۔میں چاہتا ہوں ان کے تیار ہونے سے پہلے تمھیں یونیورسٹی چھوڑ دوں۔“
”جی باباجان۔“سعادت مندی سے کہتے ہوئے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ باپ کے ساتھ یونیورسٹی کی طرف جا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے معاویہ کا ناراض چہرہ گھوم رہا تھا۔اس کے ساتھ ہی وہ دعا کر رہی تھی کہ وہ سویرے ہی کلاس روم میں آجائے تاکہ کل کی بات وہ آج سویرے سویرے کہہ کر اپنی ناراضی بھلانے کے ساتھ اپنا مطمح نظر بھی واضح کردے۔
”دل کی بات تو اس نے دو دن پہلے ہی واضح کر دی تھی۔“اسے معاویہ کا پسندیدگی ظاہر کرنابھولا نہیں تھا۔
اسے یونیورسٹی میں اتار کر محمدیوسف تو واپس چلے گئے تھے۔ پارکنگ میں معاویہ کی کار اسے نظر نہیں آرہی تھی۔وہ بجھے دل کے ساتھ کلاس روم کی طرف بڑھ گئی۔تھوڑی دیر بعد کچھ اور طلبہ بھی آگئے تھے۔ہر نئے آنے والے کی آہٹ پر اس کی بے تاب نظریں دروازے کی جانب اٹھ جاتیں۔ اور پھر معاویہ کے بجائے کسی اور کا چہرہ دیکھ کر وہ مایوسی سے سر جھکا لیتی۔
بسمہ کی آمد پر وہ بے چین سوچوں کو دور جھٹک کر اس سے گپ شپ کرنے لگی۔پیریڈ شروع ہونے تک معاویہ نہیں آیا تھا۔
”کیا اتنا خفا ہے کہ اپنی شکل بھی نہیں دکھانا چاہتا۔“اس نے پریشانی سے سوچا۔”یہ تو بہت بڑی سزا ہے دن کیسے گزرے گا۔“
پروفیسر صاحب نے بولنا شروع کر دیا تھا وہ اپنی توجہ سبق کی جانب مبذول کرنے لگی، مگر معاویہ کی سوچیں اتنی آسانی سے پیچھا چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھیں۔خالی پیریڈ کے دوران وہ بسمہ کے ساتھ اپنے پسندیدہ گوشے میں جا بیٹھی تھی۔
بسمہ کو جلد ہی اس کی غائب دماغی محسوس ہو گئی تھی۔
”شمامہ رانی، خیر تو ہے ؟کہاں گم ہو۔“
”کک....کچھ نہیں ....کچھ بھی تو نہیں۔“اس کے ایک دم استفسار پر وہ گڑبڑا گئی تھی۔
”یار کم از کم میرے سامنے تو نقاب اٹھا کر بیٹھ جایا کرو کہ مجھے شکل مبارک سے تمھاری پریشانی کا اندازہ ہو جایاکرے۔“
وہ جلدی سے بولی۔”میں کیوں پریشان ہونے لگی۔“
بسمہ اتنی جلدی مطمئن نہیں ہو سکتی تھی۔”ہر بات کے جواب میں ہوں ، ہاں سننے کو مل رہا ہے اور پریشانی کے سینگ تو نہیں ہوتے۔“
اچانک اس کے دل میں بسمہ کو راز دار بنانے کا داعیہ پیدا ہوا۔ وہ جس صورت حال میں پھنسی تھی اس بارے وہ اپنے والد صاحب سے بھی مشورہ نہیں لے سکتی تھی۔دو تین لمحوں کے بعد وہ آہستہ سے بولی۔”جانتی ہو آج معاویہ یونیورسٹی کیوں نہیں آیا۔“
”میرے تعلقات اب تک معاویہ سے اتنے نہیں بڑھے کہ اس قسم کے سوال پوچھ سکوں۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس ظالم نے اب تک بسمہ لطیف کو گھاس ہی نہیں ڈالی۔“مزاحیہ انداز میں کہتے ہوئے وہ ایک دم چونک گئی۔”لیکن اس کے بارے تم کیوں پوچھ رہی ہو؟“
”پوچھ نہیں، بتا رہی ہوں کہ وہ مجھ سے ناراض ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی نہیں آیا۔“اس نے دل میں چھپایا راز اگل دیا تھا۔
”مجھے نہیں لگتا کہ تم مذاق بھی کر سکتی ہو۔“بسمہ نے حیرانی ظاہر کی۔
”یہ دیکھو۔“شمامہ نے ”شولڈر بیگ“ میں سنبھال کر رکھا ہوا معاویہ کا رقعہ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
بسمہ شاکی ہوئی۔”اور اتنی اہم بات اب بتا رہی ہو۔“
”موقع ہی ابھی ملا ہے۔“شمامہ نے صفائی پیش کی۔
”مس کال ہی دے دیتیں کنجوس ،میں جوابی کال کر لیتی۔“
شمامہ جھلاتے ہوئے بولی۔ ”میں نے تمھارے شکوے سننے کو یہ بات نہیں بتائی مشورہ مانگا ہے۔“
” اس رقعہ میں تو ایسی کوئی بات نہیں لکھی جس سے تمھیں غلط فہمی ہو سکے۔“
شمامہ جھجکتے ہوئے بولی۔”دو دن پہلے اس نے صبح سویرے بے باکی سے اپنی چاہت جتلائی تھی۔“
”تو میرا شکوہ کرنا غلط نہیں تھا نا ں،تم کافی باتیں چھپاتی آرہی ہو۔“
”بسمہ،مجھے شرم آتی ہے ایسی باتیں کرتے ہوئے۔جانے اب بھی کتنی مشکل سے حوصلہ مجتمع کیا ہے۔“
”اچھا پریشان نہیں ہوتے ایسا کرو اسے کال کر کے معذرت کر لو۔“بسمہ نے اس کی وضاحت قبول کرتے ہوئے مشورہ دیا۔
شمامہ طنزیہ انداز میں بولی۔”اورتمھیں لگتا ہے کہ میں اتنے حوصلے والی ہوں۔“
”حوصلہ کرنا پڑے گا،بسمہ کی محبت پر ڈاکا ڈالنے والی ظالم نقاب پوش۔“بسمہ نے اس انداز میں کہا کہ شمامہ کھل کھلا کر ہنس پڑی تھی۔
”تمھاری اسی نقرئی ہنسی اور سریلے لہجے نے اسے دیوانہ بنایا ہے۔“بسمہ نے مصنوعی بیزاری ظاہر کی۔
”اگر تمھیں اس سے سچ مچ محبت ہے تو میرے ہونٹوں پر دوبارہ اس کا نام نہیں آئے گا۔“ شمامہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ پیش کش کی۔لیکن یہ کہتے ہوئے اس کا دل زبان کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔
”ارے نہیں یار۔“بسمہ خوش دلی سے مسکرائی۔” مذاق کر رہی تھی۔محبت یک طرفہ نہیں ہوتی۔“
وہ اداسی سے بولی۔”یہاںبھی تو یہی معاملہ لگتا ہے۔“
بسمہ نے حیرانی سے پوچھا۔”مطلب تمھیں اس سے محبت نہیں ہے۔“
شمامہ سرعت سے بولی۔”میں نے اپنی بات تونہیں کی۔“
”پھر....وہ تو اظہار بھی کر چکا ہے۔“بسمہ نے حیرانی ظاہر کی۔
”پتا نہیں کیوں مجھے ڈر لگ رہا ہے۔“شمامہ مضطرب ہو کر ہاتھ مروڑنے لگی۔
اس وقت وہ بسمہ کو اتنی معصوم لگی کہ بسمہ نے بے ساختہ اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر سہلاتے ہوئے کہا۔”جہاں تک میرا اندازہ ہے معاویہ ایسا لڑکا نہیں ہے۔اور اسے پسند کرتی ہو تو بات چیت کرنے میں کیاحرج ہے۔یوں بھی مل کر ہی اس کے ارادے کے بارے معلوم کیا جا سکتا ہے۔باقی ہماری تہذیب و ثقافت لڑکی کو کس حد تک چھوٹ دیتی ہے اس بارے تم مجھ سے کئی گنا بہتر جانتی ہو۔“
”شکریہ بسمہ۔“شمامہ نے ممنونیت بھرے لہجے میں کہا۔
”خالی خولی شکریے پر تو نہ ٹرخاﺅ،اسی خوشی میں اپنے لنچ بکس کا دیدار ہی کرا دو۔“
”یہ لو۔“شمامہ نے شولڈر بیگ سے لنچ بکس نکال کر شرارتی انداز میںاس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا اور پھر واپس رکھنا چاہا مگر اتنی دیر میں بسمہ چیل کی طرح جھپٹتے ہوئے لنچ بکس پر ہاتھ ڈال چکی تھی۔
”کیا تمھیں پراٹھا بنانا نہیں آتا۔“اسے ندیدوں کی طرح پراٹھا کھاتے دیکھ کر شمامہ پوچھے بنا نہیں رہ پائی تھی۔
وہ صاف گوئی سے بولی۔”آتا تو ہے،بس ہمت جمع نہیں کر سکتی۔اور پھر تمھارے ہاتھ میں ذائقہ ہی بہت زیادہ ہے۔“
”غریب لڑکیوں کے پاس شوہر کو راضی کرنے کے لیے یہی چٹکلے ہی ہوتے ہیں۔“ شمامہ اداس ہو گئی تھی۔
بسمہ نوالہ چباتے ہوئے بولی۔”یارا،اب تو غریب نہیں رہو گی۔معاویہ جیسا امیر زادہ تمھیں پسند کر تا ہے۔“
”میرا خیال ہے پیریڈ شروع ہونے والا ہے۔“شمامہ نے اٹھنے کے لیے پر تولے۔
”ہاں چلو۔“بسمہ نے آخری نوالہ منھ میں ٹھونس کر خالی لنچ بکس شمامہ کی جانب بڑھا دیاتھا۔
شمامہ نے مزاحیہ انداز میں کہا۔”لگتا ہے کل سے دو پراٹھے بنانے پڑیں گے۔“
بسمہ نے بے نیازی سے کندھے اچکائے۔”میرے لیے تو ایک ہی کافی ہے،تمھیں بھی بھوک لگتی ہے تو دو بنالیا کرو۔“
شمامہ بے اختیار ہنس دی تھی۔
جاری ہے
Comments
Post a Comment